409

آب و ہوا کی تبدیلی۔ اس کے اثرات اور پیش بندی از قلم: پروفیسر ڈاکٹر عطاء اللہ شاہ،

آب و ہوا کی تبدیلی۔ اس کے اثرات اور پیش بندی

از قلم: پروفیسر ڈاکٹر عطاء اللہ شاہ، شیخ الجامع قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی

عالمی درجہ حرارت میں پچھلی صدی میں اوسطاً ایک ڈگری سنٹی گریڈ کا اضافہ ہو چکا ہے۔ جو اگلی صدیوں میں 2سے 3ڈگری تک بڑھنے کا اندیشہ ہے۔ اسے بسا اوقات گلوبل وارمنگ یعنی ”عالمی افزود گی حرارت“ بھی کہا جاتا ہے۔ جس کی بنیادی وجہ انسانی طرز زندگی میں تبدیلی، ڈیزل اور پیٹرول کا بے دریغ استعمال، جنگلات کی کمی اور کٹاؤ وغیرہ شامل ہیں۔
انسان کے ان غیر فطری طرز زندگی نے ماحولیات پر بے انتہا بوجھ ڈال دیا ہے۔ کارخانوں سے خارج ہونے والی گیس اور فضلہ، گاڑیوں سے خارج ہونے والا دھواں اور گیس کے جلنے سے خارج ہونے والے زہریلے مادے، فضائی آلودگی کا سبب بن رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے کرۂ ارض اور کرۂ ہوا کے ارد گرد آلودگی کی ایک موٹی تہہ بن گئی ہے جو سورج کی تپش کو تو اندر آنے دے رہی ہے لیکن زمین سے خارج ہونے والی گرم ہوا کو باہر جانے سے روک رہی ہے۔ اس کو گرین ہاؤس اثر بھی کہتے ہیں۔ کیونکہ گرین ہاؤس کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ اس کے اندر خاصی گرمی رہتی ہے اور حتیٰ کہ شدید سردیوں میں بھی اس کے اندر پودے مرنے سے بچ جاتے ہیں۔ عالمی درجہ حرارت بڑھنے کی وجہ سے آب و ہوا میں تبدیلی واقع ہو رہی ہے۔ جس کا براہ راست اثر گلیشیرکے پگھلنے، دریاؤں میں طغیانی، ساحلی علاقوں میں طوفانی بارشیں، سائیکلون وغیرہ رونما ہورہی ہیں۔
گلگت بلتستان میں واقع گلیشیرز اپنی نوعیت اور حجم کے حوالے سے قطبین کے بعد تیسرا قطب سمجھا جاتا ہے۔ یہ گلیشیر پاکستان میں آب رسانی کا بڑا ذریعہ ہے اور تقریباً 70فیصد پانی کے ذرائع کا موجب ہے۔ اس کے علاوہ یہاں کے پہاڑی درے، چوٹیاں اور گزر گاہیں بھی اپنی نوعیت سے بے نظیر ہیں۔تاہم آب و ہوا کی تبدیلی اور درجہ حرارت کے اضافے کی وجہ سے ان گلیشیرز کے پگھلاؤ کا عمل بڑی سرعت سے وقوع پذیر ہو رہا ہے۔ ICIMODکے ایک مطالعے کے مطابق درجہ حرارت کے اضافے کی وجہ سے اندیشہ ہے کہ اگلے پانچ دہائیوں میں ہمالیہ کے گلیشیرز کے زیادہ تر پگھلنے کا بھی اندیشہ ہے۔ جس کی وجہ سے نشیبی علاقوں میں پانی کے حوالے سے شدید مسائل اور چیلنجز کا سامنا کرنا ہوگا۔ آب و ہوا کی تبدیلی اور درجہ حرارت کے اضافے کی وجہ سے درج ذیل بڑے مسائل وقوع پذیر ہو رہے ہیں۔
۱۔ گلیشیرز کے پگھلاؤ کی وجہ سے دریاؤں میں طغیانی اور سیلاب کے عمل میں اضافہ ہو رہا ہے۔ جس کی وجہ سے نشیبی علاقوں میں واقع آبادیوں کو شدید خطرات واقع ہیں۔
۲۔ درجہ حرارت کے اضافے اور گلیشیرز کے پگھلاؤ کی وجہ سے یہاں گلیشیرجھیلوں (Glacial Lakes) کا قیام تیزی سے واقع ہو رہے ہیں۔ اس وقت قراقرم، ہندوکش اور ہمالیہ ریجن میں کم و بیش 5ہزار گلیشیر جھیلیں بن چکی ہیں۔ جن میں کم از کم 15جھیلیں انتہائی خطرناک صورت اختیار کر گئیں ہیں۔ ان گلیشیرز جھیلوں کے پھٹنے کی صورت میں ممکنہ سیلاب کے خطرات سے نمٹنے کیلئے ضروری ہے کہ یہاں کے لوگوں کے اندر درکار صلاحیتیں پیدا کی جائے۔
۳۔ موسمیاتی اور آب و ہوا کی تبدیلیوں کی وجہ سے یہاں کے زراعت پر بھی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ پچھلے سال وقت سے کم از کم ایک مہینے پہلے اور ان گرمیوں میں درجہ حرارت میں اچانک اضافے کی وجہ سے دریاؤں میں طغیانی کی وجہ سے زیر کاشت زمینیں کٹاؤ کا شکار ہیں۔ جس کی وجہ سے فصلوں کی بوائی اور کٹاؤ کا عمل بھی کافی حد تک متاثر ہو رہا ہے۔
۴۔ درجہ حرارت میں اچانک اضافے کی وجہ سے ندی نالوں میں طغیانی کی وجہ سے پانی میں مٹی اور ریت کے زرات کے اضافے کی وجہ سے پانی انتہائی آلودہ ہوگیا اور اس سال ہنزہ میں پینے کے پانی کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ انتہائی آلودہ پانی دریائے سندھ کے ذریعے تربیلہ جھیل میں Siltکے جمع ہونے کا بڑا ذریعہ بھی بن رہا ہے۔ جس کی وجہ سے جھیل کے حجم اور پن بجلی کے پیدا وار پر بھی اثر ہو رہا ہے۔
۵۔ موسلادھار اور طوفانی بارشوں کی وجہ سے پہاڑوں کے تودے گرنے اور سلائیڈز کے واقعات سے لوگوں کے جان و مال کے ضائع ہونے کے بڑھتے ہوئے خدشات بھی تبدیلی آب و ہوا سے منسلک ہے۔
۶۔ نالوں میں سیلاب اور طغیانی کی وجہ سے پن بجلی پیدا کرنے والے پاور ہاؤس کو پانی فراہم کرنے والے چینلز کے ٹوٹنے اور پانی میں بہنے کی وجہ سے ہائیدرو پاور جنریشن کے منصوبے بھی متاثر ہورہے ہیں۔
قراقرم یونیورسٹی نے آب و ہوا کی تبدیلی کے حوالے سے وقوع پذیر اثرات کے حوالے سے مختلف قسم کی تحقیقات کی ہیں۔ لیکن ان کو مزید مربوط بنانے کیلئے یہاں کرائیوسپیئر اور آب و ہوا کا گروپ بنایا گیا ہے۔ جس کا مقصد گلیشیرز اور منجمد پانی پر آب و ہوا کی تبدیلی کے اثرات پر ایک منظم تحقیق کرانا ہے اور ان کے ثمرات گلگت بلتستان کے باسیوں تک پہنچانا ہے۔ تاکہ اس کے مضر اثرات سے بچنے کیلئے بروقت انتظامات کئے جائیں۔ اس گروپ کے ذریعے آگے جا کر مطالعات کرائیو سپیئر اور آب و ہوا کے قیام کا بھی منصوبہ بنایا جائے گا۔ فی الحال اس گروپ کی تحقیق کا بنیادی محور درج ذیل عنوانات ہیں۔
۱۔ قراقرم، ہندوکش اور ہمالیہ میں وقت کے ساتھ گلیشیرکے حجم میں تبدیلیاں اور ان کے اثرات
۲۔ گلیشیرز کے پگھلاؤ کی وجہ سے ممکنہ سیلاب کے امکانات اور ان سے نبردآزما ہونے کیلئے احتیاطی تدابیر، حالیہ GLOFکے واقعات رونما ہونے سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آچکی ہے کہ گلگت بلتستان کے چند گلیشیرز جھیلیں پھٹنے کے خطرات سے دوچار ہیں۔ ان جھیلوں پر مزید تحقیق کرنے کی بھی ضرورت ہے۔
۳۔ ان خطرناک جھیلوں کے کنارے آباد لوگ بھی مسلسل آفات کی نظر ہور ہے ہیں۔ چنانچہ ان کے اندر ان ممکنہ آفات کی صورت حال اور چیلنجز سے نمٹنے کیلئے استعداد کار بڑھانا۔
۴۔ آب و ہوا کی تبدیلی سے وقوع پذیر ہونے والی آفات کی وجہ سے یہاں کے زراعت اور کھیتی باڑی پر اثرات اور ان کا ممکنہ تدارک۔
۵۔ آب و ہوا کی تبدیلی کے حوالے سے زیادہ بہتر طریقے سے ان کی ممکنہ پیش گوئی کیلئے موزوں ماڈلنگ پر۔
۶۔ آب و ہوا کی تبدیلی سے گلگت بلتستان کے باسیوں کے روزگار اور بود و باش پر اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے ان کو متبادل کاروبار فراہم کرنا۔
۷۔ آب و ہوا کی تبدیلی کے اثرات کے حوالے سے مقامی لوگوں کے تجربات اور علم کو ایک مربوط طریقے سے یکجا کرکے اس کو احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کیلئے استعمال کرانے کا ذریعہ بنانا۔
۸۔ گلیشیرز کے پگھلاؤ کے عمل سے گلیشیرز جھیلوں کے پھٹنے اور اس سے سلاب کے بارے میں قبل ازوقت تنبیہ دینے اور احتیاطی تدابیر کیلئے قبل از وقت وارننگ نظام کی تنصیب۔
۹۔ آب و ہوا کی تبدیلی کی وجہ سے مختلف علاقوں میں ممکنہ درپیش آفات کیلئے نقشوں کی ترتیب جن میں گلاف، سیلاب، زلزلوں، لینڈ سلائیڈز اور دریاؤں میں طغیانی کے حوالے سے گلگت بلتستان کے مختلف علاقوں اور کمیونیٹیز کا تجزیہ اور ان کے تدارک کیلئے دیر پا منصوبوں کیلئے تجاویز پیش کرنا۔
گلگت بلتستان میں آب و ہوا کی تبدیلی او درجہ حرارت کے اضافے سے یہاں کے نایاب گلیشیرز کے حجم میں مسلسل کمی آرہی ہے۔ پچھلی چار پانچ دہائیوں میں ہمالیہ، قراقرم اور ہندوکش کے خطے میں گلیشیرز کے حجم میں مسلسل کمی واقع ہو رہی ہے۔ مثلاً بالتورو گلیشیر کے حجم میں تقریباً 17مربع کلومیٹر یعنی 15فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے۔ اس طرح جنھاؤ گلیشیر کے حجم میں 6مربع کلومیٹر اور بیافو گلیشیر کے حجم میں 8.5کلومیٹر کمی واقع ہوئی ہے۔ ICIMODکے ایک تجزیے کے مطابق اس وقت ہمالیہ، قراقرم اور ہندوکش کے خطے میں کم و بیش 5200گلیشیرز جھیلیں واقع ہیں۔ جن میں کم از کم 52جھیلیں خطرناک صورت حال اختیار کرچکی ہیں۔ ان میں کم از کم 10گلیشیر جھیلیں انتہائی خطرناک صورت حال تک پہنچ چکی ہیں۔ جن کیلئے ہر وقت پیش بندی انتہائی اہم ہے۔ اس وقت گلگت بلتستان اور چترال ریجن میں گلاف یعنی گلیشیر جھیلوں کے پھٹنے کی صورت میں ممکنہ سیلاب کے خطرات سے نمٹنے کیلئے UNDPکے ذریعے ایک موثر گلاف 2پروگرام کا اجراء کیا گیا ہے۔ اس پروگرام کے ذریعے ان خطوں میں گلاف کے اثرات کو کم کرنے کیلئے دیر پا منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔ قراقرم یونیورسٹی تبدیلی آب و ہوا گروپ کی خواہشن ہے کہ وہ گلاف 2پراجیکٹس /پروگرام میں شریک عمل ہو کر گلگت بلتستان میں گلاف کے حوالے سے درکار تحقیق، آگاہی اور ضروری مطالعے کیلئے اپنا بھرپور کردار اداکرے۔
یہ بات انتہائی خوش آئند ہے کہ گلگت بلتستان حکومت نے آب و ہوا کی تبدیلی کے حوالے سے ایک ٹاسک فورس قائم کیاہے تاہم اس کو مزید موثر بنانے کیلئے ضروری ہے کہ قراقرم یونیورسٹی اور گلگت بلتستان حکوموت مل کر آب و ہوا کے تبدیلی کے تناظر میں علم وتحقیق کرانے کیلئے ہاتھ ملائیں۔ قراقرم یونیورسٹی مستقبل میں کرائیوسپیراور آب و ہوا گروپ کو باقاعدہ ایک ریسرچ سنٹر میں منتقل کرانے کیلئے بھی منصوبہ بند ی کی جارہی ہے۔ جامعہ قراقرم اس ضمن میں شرکائے کار کی تلاش میں ہے۔
قراقرم یونیورسٹی اس وقت تبدیلی آب و ہوا کے اثرات کے حوالے سے درج ذیل تحقیق کرانے میں مگن ہے۔
۱۔ ہمالیہ، قراقرم اور ہندوکش میں اہم گلیشیرز کے حجم میں وقت کے ساتھ تبدیلی کے اثرات کا جائزہ اور تجزیہ لینے کیلئے GISاور ریموٹ سنسینگ کے ذریعے پچھلے چار پانچ دہائیوں کا ڈیٹا جمع کرانا۔
۲۔ پاسو، شگر اور بگروٹ کی وادیوں میں ممکنہ گلاف کی صورت میں لوگوں کے اندر درکار صلاحیتوں کا جائزہ لیا گیا اور اس کیلئے ضرورت سفارشات مرتب کی گئیں۔
۳۔ شیسپر اور بدصوات گلیشیر سے ممکنہ تباہی کا جائزہ لینے کیلئے بھی ایک پراجیکٹ کا آغاز کیا گیا ہے۔ ۴۔ آب و ہوا کی تبدیلی کی وجہ سے زراعت اور فصلوں کی پیداوار کے حوالے سے درکار تحقیق۔
۵۔ وادی یاسین میں مختلف آبادیوں اور کمیونیٹیز کو گلاف کی وجہ سے درپیش ممکنہ خطرات کا تجزیہ اور مطالعہ اور ان کا تدارک۔
۶۔ گلگت بلتستان میں زراعت کیلئے کاربن کریڈٹ سسٹم کا اطلاق کے حوالے سے تجزیہ اور اس نظام کو پورے خطے میں لاگو کرنے کے امکانات کا مطالعہ۔
گلگت بلتستان میں آب و ہوا کی تبدیلی کے حوالے سے درپیش خطرات سے نمٹنے کیلئے ضروری ہے کہ تعلیمی ادارے، صوبائی اور مرکزی حکومت، بین الاقوامی اور ملکی ادارے، پرائیویٹ اور پبلک سیکٹر کے تمام اداروں اور کمیونٹی ان کیلئے ایک دیرپا حل مرتب دیں۔ قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی اس ضمن میں اپنا بھر پور کردار ادا کرنے کیلئے تیار ہے اور ان تمام اداروں کے ساتھ مل کر اس ضمن میں ہر ممکن عمل کرنے کیلئے تیار ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں