1,201

نگر، کرونا وائرس، اور تدبیریں

……………….. نگر، کرونا وائرس، اور تدبیریں……………………..

اس قوم کو کیا خاک ڈرائے گا کرونا
یہ وہ ھے جو طوفان حوادث میں پلی ھے

اس صدی کی سب سے بڑی وبا COVID-19 نےدسمبر 2019 میں چین کے وھان شہر میں سر اٹھایا اور 2020 کے ابتدائی دو مہینوں میں ہی تیزی سے پھیلنا شروع کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کے تقریباً دوسو ملکوں میں پھیل گیا. اس وبا سے پاکستان بھی محفوظ نہ رہا.
ایران، کچھ عرب ممالک، یورپ، آسٹریلیا اور امریکہ سےآنے والے مسافروں کےذریعے پاکستان میں بھی یہ وائرس پھیلنے لگا. گلگت بلتستان اور بالخصوص ضلع نگر بھی باہر سے آنے والے مسافروں کی اس وائرس سےعدم آگاہی اور غفلت،نیز انتظامیہ کی بد انتظامی کی وجہ سے اس عالمی وبا کے زد میں آگیا، مزید ستم بالائے ستم یہ ہوا کہ نگر میں 10 اور 30 بڈ کے پانچ ھسپتال موجود ہیں لیکن اس وائرس سے نمٹنے کے اوزار و آلات ہی نہیں بلکہ نہ تو سادہ بیماریوں کے علاج کی دوائیں پائی جاتی ہیں اور نہ ہی ضرورت کے ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل سٹاف موجود ھے. اس سبب وائرس سے نمٹنے میں شدید کٌندی پیش آئی. نگر کے زائرین مقامات مقدسہ کی زیارات سے جب واپس آنے لگے تو انکو تافتان بارڈر پر دس بارہ دن قرنطینہ میں رکھا گیا.
اور جس طرح ان کو قرنطینہ میں رکھا گیا اس سے اس وائرس پر قابو پانے کے بجائے اور زیادہ پھیلنے کا موجب ھوا.
تافتان قرنطینہ سنٹر میں زواروں کو اجتماعی شکل میں قرنطینہ میں رکھا گیا جس کے نتیجے میں جنہیں وائرس نہیں تھا ان میں بھی یہ وائرس لگنے کے امکانات بڑھنے لگے. مزید یہ کہ بسوں میں ٹھونس کر بغیر آب و غذا کے اور بغیر کسی آرام کے تذلیل و توھین کے ساتھ سیدھا گلگت پہنچا دیا گیا جس کے سبب ان کی قوت مدافعت بھی کمزور پڑ گئی ان وجوھات کے سبب کسی حد تک یہ وائرس نگر میں میں بھی پھیل گیا.
مقامی انتظامیہ بھی اس پر قابو پانے میں زیادہ کامیاب نہیں ہوا.
یکم مارچ سے سب اسکول بند کردیئے گئے تھے، اور 19مارچ کے بعد اس وائرس پر قابو پانے کیلئے جو اقدامات کئے گئے وہ اقدامات اگر یکم مارچ سے ہی کئے جاتے تو نتیجہ کچھ اور ھوتا.
مگر ایسا نہ ھوا اور یوں پورے پاکستان کے منفی سوچ کے حامل افراد کو اپنے دل کا بڑھاس نکالنے کا موقعہ ملا. وہ تو کہئیے کہ کائنات کی تدبیر کرنے والی ذات کی تدبیر شاید یہ تھی کہ کچھ لوگ بھی آشکار ھوں اور مظلوموں کو کوئی خاص نقصان بھی نہ ھو. یہی وجہ ہے کہ پانچ سے چھ ہزار زواروں میں سے کسی کی موت اس وائرس کی وجہ سے بحمد اللہ ابھی تک نہیں ھوئی.
نگر بھی اس وائرس سے زیادہ متأثر ھونے والے مقامات میں سے ایک تھا، ان حالات میں نگر کے اصحابِ تدبیر اور صاحبانِ فہم و فراست کو حکومت یا کسی انتظامیہ کے انتظار میں رہنا معقول نہیں تھا. چنانچہ انجمن حسینیہ نگر ویلفیئر ٹرسٹ، حسینیہ سپریم کونسل نگر اور نگر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے ذمّہ داروں نے اس وبا کو قابو کرنے کی ٹھان لی اور اس کے متعلق آگاہی مہم پر نکل گئے (اگرچہ انجمن حسینیہ نگر ویلفیئر ٹرسٹ، حسینیہ سپریم کونسل نگر اور نگر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری غیر سیاسی ادارے ہیں مگر انکو اس مہم میں کودنا پڑا تاکہ جلد اس وائرس پر قابو پائیں، نیز اگر کوئی ایک عدد فیس ماسک کی بھی مدد کرنے کے بعد اس عمل سے سیاسی مقاصد حاصل کرنے اور نگر پر احسان جتانے کی کوشش کرنا چاھے تو اس میں وہ کامیاب نہ ھو)
مذکورہ بالا اداروں کی اس کاوش کے نتیجے میں نگر کے سمجھدار عوام کو یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ اس وبا کو کنٹرول کرنے کا اھم سبب سماجی فاصلہ اور ایک دوسرے سے میل ملاپ نہ رکھنا ھے. اور عوام نے بھر پور تعاون کیا. اور بحمد اللہ اس وائرس کا مذید پھیلاؤ رک گیا. مذکورہ بالا اداروں کے اس آگاہی مہم میں نگر کے علما، بزنس کمیونٹی، بیوروکریٹس اور NSF کے رضاکاروں نے بھرپور کردار ادا کیا. اور ڈپٹی کمشنر نگر جناب شاہرخ چیمہ بھی بہت ہی متحرک رھے تاھم وسائل کی عدم دستیابی اسے کامیاب زیادہ نہیں ھونے دیتی اگر مذکورہ بالا ھمت اور مہم سامنے نہ آتے.
یہ شکوہ بھی بے جا نہ ہوگا کہ جن ضلعوں میں یہ وبا پھیلی نہ تھی وہاں کے ایڈمنسٹریشن کو چاہئیے تھا کہ اپنے ضلعے کے محکمہ صحت کے ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف کو اس وبا زدہ ضلعے میں بھیج دیتا تاکہ اس وائرس کے پھیلاؤ کو کنٹرول کرنے میں آسانی ہوتی.
ھم لوکل گورنمنٹ بالخصوص وزیر اعلیٰ سے بھر پور امید اور توقع رکھتے ہیں کہ مذکورہ بالا ھسپتالوں کے لئے انکی ضرورت کے مطابق ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف تعین کرے اور انٹرنیشنل اور نیشنل سطح پر اس وبا کو کنٹرول کرنے کے لیے جو ادویات اور مشینری متوقع طور پر آئیں گی انہیں مذکورہ بالا ھسپتالوں کو ترجیحی بنیاد پر فراھم کیا جائے تاکہ یہ وبا اس وبازدہ ضلع سے کسی اور ضلع تک سرایت نہ کر جائے.

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں