dailyrehbargilgit 392

طلبا پر پولیس لاٹھی چارج کا جواز نہیں

پیر کے روز ہر سپو کالج کے طلبا ء کالج سے نکالے جانے کے خلاف احتجاج کر رہے تھے کہ دفعتاً پولیس نے طلباء پر دھاوا بول دیا، لاٹھی چارج کیا اور درجنوں طلباء کو گرفتار بھی کیا یہ ایسی خبر ہے جس نے علم دوست اور حساس مذاج افراد کویہ سوچنے پر مجبور کیا ہے کہ آیا اس طرح کے اقدامات سے علاقے میں تعلیم کے فروغ اور علم کی ترویج و ترقی میں کوئی مدد مل سکتی ہے دنیا میں گلگت  بلتستان بالخصوص ہنزہ نگر کے اضلاع شرح خواندگی کے حوالے سے ایک مثبت شہرت رکھتے ہیں۔ اس طرح کے اقدامات اور واقعات سے اس مثبت تشخص کو اجاگر کرنے میں بھی کوئی مدد ملے گی یا یہ مثبت تشخص داغدار ہوگا ہریسپو کالج کے طلبا ء کی احتجاج کا پس منظر یہ بتایا گیا ہے کہ سیکنڈ ائیر کے 25 طلباء کو کالج انتظامیہ نے امتحانات میں خرآب کارکردگی کی بنیاد پر کالج سے بے دخل کردیا تھا

جس پر ان طلباء نے احتجاج کیا جس کے جواب میں پولیس ایکشن کیا گیا نہ صر ف ان طلباء پر لاٹھی چارج ہوا بلکہ طلبہ کو حوالات میں بھی ڈال دیا گیا لاحول ولا قوۃاس طرح کے اقدامات کی نہ صرف مذمت کی جانی چاہئے بلکہ اس طرح کے غیر ذمہ دارانہ اور جلد بازی میں کیئے جانے والے ایکشن پر ذمہ دار پولیس اور انتظامیہ کا محاسبہ بھی ہونا چاہئے یہ کیا بات ہوئی ایک جانب کالج انتظامیہ اپنے ذمہ داریوں سے بہتر انداز میں عہدہ برآ ہونے کی بجائے طلباء کی کارکردگی کی خرابی کی ذمہ داری ان بچوں پرڈال دے

اس کی مثال ایسی ہوئی جیسے بیمار کو بیماری کا ذمہ دار ٹھرایا جائے اور اس کے علاج سے انکار کیاجائے۔ آج کل سرکاری سکولوں، کالجوں میں ایک رجحان دیکھنے میں آرہا ہے،وہ ہے مثبت کارکردگی کے جھوٹے اظہار اور پرچار کیلئے صرف ٹاپر طلبہ کو داخلے ملتے ہیں جن طلباء و طالبات کی گریڈ یا کارکردگی اچھی نہیں ہوتی ان کو داخلہ نہیں ملتا

یہ عجیب اور سمجھ میں نہ آنے والی منطق ہے یہ تو اساتذہ اور تعلیمی ادارے کی انتظامیہ کا کمال تب ہے جب اوسط زہانت یا کم ذہین طلباء پر زیادہ محنت کر کے ان کو اس قابل بنائیں کہ وہ پڑھ لکھ کر معاشرے میں اپنا مقام پیدا کر سکیں ورنہ ذہین اور فطین طلباء و طالبات اپنی خداداد صلاحتوں کی بدولت نمبر حاصل کرتے ہیں اس میں کالج اور اسکول کی انتظامیہ سے زیادہ ان طلباء کی زاتی ذہانت اور قابلیت کا عمل دخل ہوتا ہے نہ کہ اساتذہ کا گلگت بلتستان ملک کا نسبتاً غیر ترقی یافتہ خطہ ہے یہاں کے لوگوں کا بیشتر ذریعہ معاش کھیتی باڑی اور مال مویشی پالنا ہے آبادی کی اکثریت بمشکل اپنا گذر بسر کرتی ہے

 ایسے حالات میں نجی تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنا ہر ایک کی بس کی بات نہیں ہوتی چنانچہ کم آمدن اور استطاعت نہ رکھنے والے والدین اپنے بچوں کو سرکاری تعلیمی اداروں میں بھیجتے ہیں اور انکے پاس بچوں بچیوں کی تعلیم کا اور کوئی آپشن نہیں ہوتا لہذا محکمہ تعلیم کو اس اہم نکتے پر توجہ دینی چاہئے اور غریب والدین کو اپنی اولاد کے زیور تعلیم سے آراستہ کر نے کی خواہش میں دیوار بننے کی بجائے امید کی کرن بننا چاہیئے صوبائی حکومت تعلیم کے فروغ اور معیار تعلیم کو  بڑھانے کے جن منصوبوں پر عمل پیرا ہونے کا دعویٰ کرتی ہے اس کا عملی اظہار سرکاری تعلیمی اداروں میں سب کو حصول تعلیم کے برابر مواقع فراہم کر کے کرسکتی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں