392

عددی اکثریت کے باوجود اپوزیشن کو ایوان بالا میں ایک بار پھر شکست، 3 بل منظور

سلام آباد: سینیٹ اجلاس میں اپوزیشن کو عددی اکثریت کے باوجود ایک بار پھر شکست کا سامنا کرنا پڑا، حکومت کی جانب سے ایوان بالا میں تین بل پیش کیے گئے جو منظور ہوگئے۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق سینیٹ میں عددی اکثریت کے باوجود اپوزیشن کو ایک بار پھر شکست سے دوچار ہونا پڑا، ایوان کے اندر اہم قانون سازی کے دوران اپوزیشن اپنی اکثریت ثابت کرنے میں ناکام رہی جواباً حکومت ایوان سے آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی آرڈیننس میں دو ترامیم، اقرا الائیڈ ہیلتھ پروفیشنل کونسل بل سمیت تین اہم بل منظور کرانے میں کامیاب ہوگئی۔

اپوزیشن نے آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی ترمیمی بل پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ حکومت آئی ایم ایف کے کہنے پر وفاق سے اختیارات اتھارٹیز کو دے رہے ہیں، حکومتی اراکین نے موقف اپنایا کہ ان بلوں کا مقصد اتھارٹیز کو با اختیار بنانا ہے، اوگرا ترمیمی بلوں پر حکومت و اپوزیشن کے مابین عدم اتفاق پر چیئرمین سینیٹ کی جانب سے بلوں کو موخر کرنے کے بعد دوبارہ منظوری کیلئے ایوان میں پیش کرنے پر اپوزیشن نے ایوان سے واک آوٹ کیا، اپوزیشن نے پٹرولیم کی قیمتوں میں اضافے کا معاملہ ایوان میں اٹھایا تاہم ایوان سے واک آؤٹ کرنے کے باعث اس معاملے پر بحث نہ ہوسکی۔
وزیر مملکت علی محمد خان نے بل کے لیے تحریک پیش کی، جس کے حق میں حکومت کی جانب سے 29 ووٹ آئے، اپوزیشن کی جانب سے بھی مخالفت میں 29 ووٹ آئے۔ جس پر چئیرمین سینیٹ نے مزاحیہ انداز میں کہا کہ پھر مصیبت میرے اوپر آگئی۔ چئیرمین سینیٹ نے اپنا ووٹ حکومت کے پلڑے میں ڈال دیا۔ ایوان بالا میں الائیڈ ہیلتھ پروفیشنل کونسل بل متفقہ طور پر منظور کرلیا گیا، اور بل کی مخالفت میں کسی نے نو تک نہ کہا۔

ایوان میں حکومتی بینچز پر ارکان کی اکثریت کو دیکھتے ہوئے قائد ایوان نے پہلے سے مؤخر کردہ اوگرا ترمیمی بلوں کو ایوان میں دوبارہ سے پیش کرنے کا مطالبہ کیا۔ جس پر پیپلزپارٹی کے سینیٹر اور قائد حزب اختلاف یوسف رضا گیلانی نے اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ اس بل کو چیئرمین نے مؤخر کیا ہے اس کو مزید پیش نہ کیا جائے، اور اگر مؤخر کرنے کے بعد بل پیش کیا گیا تو ہم ایوان سے واک آؤٹ کریں گے۔

دوسری جانب ایوان بالا میں وزیر مملکت علی محمد خان کی جانب سے آئل اینڈ گیس ریگولیٹری بل ایک مرتبہ پھر پیش کردیا گیا، اور اپوزیشن جماعتوں نے ایوان سے واک آؤٹ کردیا، اپوزیشن کی عدم موجودگی میں ایوان نے اوگرا ترمیمی (دوسرا ترمیمی) بل کی منظوری دے دی۔

اجلاس میں اپوزیشن رکن سینیٹر مشتاق بھی بل میں ترمیم لے آئے، اور کہا کہ قائمہ کمیٹی اجلاس میں میں شریک نہ ہوسکا، اسلئے اس میں ترمیم لانا چاہتا ہوں۔ جس پر چیئرمین سینٹ نے کہا کہ آپ کے ترمیم کو ابھی نہیں لے سکتے۔

شبلی فراز نے کہا کہ یہ روایات کے خلاف ہے، جب کمیٹی نے بل پر اپنی رپورٹ پیش کردی تو اس کے بعد الگ ترمیم مناسب نہیں، اس بل کو منظور ہونے دو، معزز رکن بعد میں ترمیم لے آئیں۔

یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ حکومت یقین دہانی کرائے کہ بعد میں اپوزیشن رکن کی ترمیم پر غور کرے۔ جس پر شبلی فراز نے جواب دیا کہ ہم یقین دلاتے ہیں کہ ان کے بل کو ہم بعد میں دیکھیں گے۔

یوسف رضا گیلانی نے سینیٹ چیئرمین سے درخواست کی کہ اپوزیشن رکن سینیٹر مشتاق کو بولنے کا موقع دیاجائے۔ اظہار خیال کا موقع ملنے پر سینٹر مشتاق احمد نے کہا کہ یہ بل حکومت آئی ایم ایف کے کہنے پر لائی ہے، پارلیمنٹ کے کردار کو ختم کرنے کے مترادف ہے، بل اوگرا کی قیمتوں کا تعین کے اختیار کے حوالے سے مفادات کا ٹکراؤ ہے۔

اوگرا ریگولیٹری اتھارٹی ترمیمی بل پر اظہار خیال کرتے ہوئے وفاقی وزیر شبلی فراز کا کہنا تھا کہ یہ لوگ حقائق کو مسخ کرکے پیش کرتے ہیں، ریگیولٹری اتھارٹیز کو گھر کی لونڈی بنا دیا گیا ہے، ریگولری اتھارٹیز حکومت کے زیر اثر نہیں ہونی چاہئیں، آئی ایم ایف یا مشترکہ مفادات کائونسل کا اس بل سے کوئی تعلق نہیں، اس بل کے ذریعے ہم ریگولیٹری اتھارٹی کو بااختیار بنانا چاہتے ہیں، ہمارے ہاں ریگولیٹری اتھارٹیز کو کبھی امپاور نہیں کیا گیا، اس میں آر ایل این جی کی تعریف کی گئی ہے، ہم تو اختیارات اپنے پاس رکھنے کے بجائے اتھارٹیز کو سونپ رہے ہیں۔

سینٹر رضا ربانی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ بل کمیٹیوں کے پاس جانے کی بجائے کیسے براہ راسث پاس کئے جا سکتے ہیں، مشترکہ مفادات کونسل کو سائیڈ لائن کر کے یہ سب کیا جا رہا ہے، آئی ایم ایف کے کہنے پر حکومت ایسے بل لا رہی ہے، حکومت آئی ایم ایف کے کہنے پر وفاق سے اختیارات اتھارٹیز کو دے رہا ہے۔

سینیٹر شیری رحمان کا کہنا تھا کہ اتھارٹیز کو خود مختار کرے لیکن اس کو پاکستان سے بھی خود مختار نہ کیا جائے، یہ کسی ملک میں نہیں ہوتا کہ ریگیولٹری اتھارٹیز کو براہِ راست عالمی اداروں سے جواڑ جائے، اب جس طرح سٹیٹ بنک حکومت کو رپورٹ نہیں کرتا یہ بھی رہورٹ نہیں کرے گا، یہ اتھارٹیز مشترکہ مفادات کونسل اور منتخب اسمبلیوں سے رجوع نہیں کرتے، سینٹ کو اس طرح کے معاملات میں پارٹی نہ بنائیں، اگر اس طرح کے بل پاس ہونگے تو صوبوں کے حقوق کہاں جائیں گے۔

وزیر مملکت علی محمد خان نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ سی سی آئی یا آئین کی خلاف ورزی کا سوچ بھی نہیں سکتا، ہماری حکومت کوئی ایسا کام نہیں کرے گی جو آئین کے خلاف ہو، ہم صوبائی خودمختاری و حقوق کے تحفظ کو یقینی بنائیں گے۔

قائد ایوان شہزاد وسیم نے کہا کہ اس بل کی قائمہ کمیٹی نے متفقہ طور پر منظوری دیدی تھی، کمیٹی میں تمام جماعتوں کی نمائندگی موجود ہے، ہمارا موقف ہے کمیٹی کے فیصلے کو اہمیت دے، میری استدعا ہے کہ اس بل کو پاس کرے۔

بل پر حکومت اور اپوزیشن کا اتفاق نہ ہوسکا، جس کے بعد چیئرمین سینٹ نے اوگرا ریگولیٹری اتھاٹی ترمیمی بل میں مزید ترمیم بارے دونون بلز مؤخر کردیا۔
بشکریہ ایکسپریس نیوز

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں