258

ہر قسم کے بیکٹیریا مارنے کےلیے ’زہریلے تیر‘ جیسی اینٹی بایوٹک تیار

نیوجرسی / کراچی: پرنسٹن یونیورسٹی، امریکا میں سائنسدانوں کی ایک ٹیم نے ایسی دوا (اینٹی بایوٹک) تیار کرلی ہے جو ’’سالماتی زہریلے تیر‘‘ کی طرح کام کرتے ہوئے کسی بھی قسم کے بیکٹیریا کو ہلاک کرسکتی ہے چاہے وہ کتنا ہی سخت جان کیوں نہ ہو۔ اس سے بھی زیادہ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ، روایتی اینٹی بایوٹکس کے برعکس، اس دوا کے خلاف جرثوموں میں مزاحمت بھی پیدا نہیں ہوتی۔ اب تک اسے چوہوں پر آزمایا جاچکا ہے تاہم اس کی انسانی آزمائشوں کے بعد تجارتی پیمانے پر دستیابی میں کم از کم آٹھ سال لگ سکتے ہیں۔

تحقیقی مجلے ’’سیل‘‘ کی تازہ آن لائن اشاعت میں اس اہم پیش رفت کی تفصیلات شائع ہوئی ہیں، جن سے پتا چلتا ہے کہ یہ دوا عام اینٹی بایوٹکس کے مقابلے میں بالکل مختلف انداز سے کام کرتی ہے۔ اسے طبّی صنعت میں برسوں سے استعمال ہونے والے ایک مرکب ’’ایس سی ایچ 79797‘‘ کے سالمات میں ترمیم کرکے بنایا گیا ہے جبکہ اس کا نام ’’اِرزسٹین 16‘‘ (Irresistin-16) رکھا گیا ہے۔

ایس سی ایچ 79797 ایک زہریلا مادّہ ہے جو صرف مخصوص طبّی مقاصد ہی میں خصوصی احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے بعد ہی استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے بارے میں معلوم ہوا کہ یہ کسی بھی خلیے کو ہلاک کرسکتا ہے چاہے وہ کیسا ہی سخت جان اور ڈھیٹ کیوں نہ ہو۔ ضد حیوی ادویہ (اینٹی بایوٹکس) کے خلاف جراثیم کی بڑھتی ہوئی مزاحمت سے پریشان سائنسدانوں اور محققین کی نظریں اس مرکب پر بھی تھیں لیکن وہ نہیں جانتے تھے کہ آخر یہ کیسے کام کرتا ہے اور کسی بھی طرح کے خلیے، بشمول جرثومے، کو ہلاک کر دیتا ہے۔

پرنسٹن یونیورسٹی کے ماہرین نے سب سے پہلے اسی سوال کا جواب تلاش کیا۔ کئی سال کی تحقیق کے بعد وہ آخرکار یہ جاننے میں کامیاب ہوگئے کہ ایس سی ایچ 79797 کا سالمہ (مالیکیول) بیک وقت دو خصوصیات رکھتا ہے: یہ کسی تیر کی طرح نوکدار ہوتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ زہریلا بھی ہوتا ہے۔

جب یہ کسی جاندار خلیے پر حملہ کرتا ہے تو سب سے پہلے اپنی تیر جیسی ساخت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس خلیے کی جھلی (سیل میمبرین) پھاڑ ڈالتا ہے اور اس کی تباہی کا آغاز کرتے ہوئے اندر داخل ہوجاتا ہے۔

خلیے کے اندر پہنچ کر یہی سالمہ اپنے زہر سے کام لیتا ہے اور ڈی این اے/ آر این اے کی ساخت میں کلیدی اہمیت رکھنے والے ’’فولیٹ‘‘ کے ٹکڑے اُڑا دیتا ہے۔ اس طرح یہ جیتے جاگتے خلیے یا جرثومے کو موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے۔

البتہ، مشکل یہ تھی کہ ایس سی ایچ 79797 بے ضرر خلیوں اور جرثوموں، دونوں کو یکساں بے رحمی سے ہلاک کرتا ہے، جبکہ بطور دوا استعمال ہونے کےلیے ضروری ہے کہ یہ صرف مخصوص جرثوموں ہی کو نشانہ بنائے جبکہ دوسرے خلیوں کو نقصان نہ پہنچائے۔

ایس سی ایچ 79797 کا طریقہ واردات سمجھنے کے بعد ماہرین نے مزید تحقیق کی اور اسے تبدیل کرکے ’’اِررزسٹین 16‘‘ نامی اینٹی بایوٹک تیار کرلی۔ ابتداء میں اسے ای کولائی سے لے کر انتہائی سخت جان ’’ایم آر ایس اے‘‘ (MRSA) کہلانے والے مضر جرثوموں تک کے خلاف کامیابی سے آزمایا گیا۔

ان تجربات سے معلوم ہوا کہ اِررزسٹین 16 جرثوموں کےلیے انسانی خلیات کے مقابلے میں تقریباً 1,000 گنا زیادہ ہلاکت خیز ہے۔ علاوہ ازیں، اس دوران سب سے اہم انکشاف یہ بھی ہوا کہ اِرزسٹین 16 کے خلاف کسی بھی طرح کے جراثیم میں کئی نسلیں گزرنے کے بعد بھی کوئی مزاحمت پیدا نہیں ہوئی… یقیناً یہ ایک بڑی کامیابی تھی۔

اگلے مرحلے میں اسے ایک قسم کے انتہائی سخت جان جرثوموں (بیکٹیریا) سے متاثرہ چوہوں پر آزمایا گیا۔ ان تجربات میں بھی اِررزسٹین 16 نے جرثوموں کا بھرپور انداز سے خاتمہ کیا لیکن دوسری جانب چوہوں کے دوسرے صحت مند خلیوں کو بہت کم نقصان پہنچایا۔

اینٹی بایوٹکس پر تحقیق کرنے والے ماہرین نے اسے ایک انقلابی کامیابی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’’زہریلے تیر جیسی اینٹی بایوٹکس‘‘ کی تکنیک سے بیماریوں کے علاج میں امکانات کا ایک نیا باب کھل گیا ہے۔

اگلا مرحلہ اس نئی طرز کی اینٹی بایوٹک کی انسانی آزمائشوں (کلینکل ٹرائلز) کا ہے جن کا آغاز مزید تجربات کے بعد ایف ڈی اے کی منظوری سے مشروط ہے۔

بشکریہ ایکسپریس نیوز

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں