345

مر کر بھی چین نہ پایا

انسداد خودکشی کے عالمی دن، یعنی 10 ستمبر کو عالمی ادارہ صحت نے ایک رپورٹ جاری کی کہ دنیا بھر میں ہر 40 سیکنڈ میں ایک شخص خودکشی کرلیتا ہے اور اس رپورٹ میں خطرناک بات یہ بتائی گئی کہ ہر سال اس وجہ سے کسی جنگ کے مقابلے میں زیادہ لوگ مرتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق سالانہ 8 لاکھ افراد خودکشی کرتے ہیں۔

یہ اعدادوشمار دیکھنے کے بعد پہلی سوچ یہی آتی ہے کہ انسانوں کو اس دنیا سے ختم کرنے کےلیے کسی جنگ کی کیا ضرورت؟ جب خود انسان ہی اپنے لیے کافی ہے۔ انسان اس دنیا میں جینے کےلیے آیا ہے۔ اس زندگی کو گزارنے اور اس کو بہتر بنانے کےلیے انسان کیا جتن نہیں کرتا۔ لاکھ ٹھوکریں کھاتا ہے مگر پھر بھی سنبھل جاتا ہے۔ اس دنیا میں سب سے زیادہ پیار انسان کو اپنی زندگی سے ہوتا ہے، کیونکہ حقیقت میں اس زندگی کی ہی وجہ سے انسان کا ناتا اس دنیا سے جڑا ہوا ہے۔ زندگی حقیقت میں کچھ بھی نہیں، صرف اور صرف سانس چلنے کی گیم ہے۔ اسی سانس کی ہی وجہ سے ہمارے خواب، خواہشیں، رشتے سب زندہ رہتے ہیں۔ تو سوچنے والی بات یہ ہے کہ انسان جو خود اپنی زندگی سے اتنی محبت کرتا ہے پھر ایسا کیا ہوتا ہے کہ وہ اپنی زندگی کو ختم کرلیتا ہے؟

یہ سوچ بہت عام ہے کہ مر کر انسان تمام غموں سے آزاد ہوجاتا ہے۔ بظاہر تو یہ بات بھی ٹھیک ہے کہ واقعی انسان آزاد ہوجاتا ہے۔ مگر وہ پیچھے اپنے رشتوں کےلیے کچھ ایسے غم چھوڑ جاتا ہے کہ وقت بھی ان دکھوں پر مرہم رکھنے میں ناکام رہتا ہے۔ اور کچھ ایسے سوالات بھی چھوڑ جاتا ہے جن کے جواب کبھی نہیں ملتے۔

انسان زند گی کو بہتر طریقے سے سمجھ ہی نہیں پایا کہ زندگی ہے کیا؟ یہ آسان اور ہمارے مطابق نہیں ہے۔ انسان اصل میں زندگی کو آسان بنانے کے چکر میں لگا رہتا ہے اور جب اس میں ناکامی ہوتی ہے تو وہ مایوس ہوجاتا ہے۔ بعض اوقات زندگی ہماری سوچ کے مطابق ہوجاتی ہے اور بعض اوقات امید سے بھی زیادہ خلاف۔ لیکن یہ آسان نہیں ہوتی۔

اس بارے میں تو قرآن میں بھی ہے کہ ’’بے شک زندگی تھکا دینے والی چیز ہے‘‘۔ اور یہ انسان کو اتنا تھکا دیتی ہے کہ انسان اس کو ختم کرنے پر آجاتا ہے۔ اسے لگتا ہے کہ چونکہ سارے مسئلے اس زندگی سے ہی منسلک ہیں، تو نہ یہ رہے گی اور نہ ہی مسائل، تو اس کا خاتمہ کردینا ہی بہتر ہے۔ انسان کی منفی سوچیں اُس پر اتنا حاوی ہوجاتی ہیں کہ وہ اس بات کو بھی بھول جاتا ہے کہ وہ اپنی مرضی سے اس دنیا میں نہیں آیا، یہ قدرت کی طرف سے فیصلہ کیا گیا۔ اسی طرح وہ اپنی مرضی سے اس دنیا سے جا بھی نہیں سکتا۔ یہ فیصلہ بھی قدرت نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہے۔ اس کی مشکلات اس کےلیے زندگی کا سفر مزید مشکل بنادیتی ہیں، اسے موت کے علاوہ کوئی اور راستہ نظر ہی نہیں آتا۔ مگر اس کا یہ فیصلہ کچھ سوالوں کو جنم دے دیتا ہے۔

کیا موت کا فیصلہ انسان اپنے ہاتھ میں لے کر قدرت کے کاموں میں دخل اندازی کرنا چاہتا ہے؟ کیا ایک کمزور اور ناتواں انسان کے ہاتھ میں یہ طاقت ہوسکتی ہے کہ وہ اتنا بڑا فیصلہ خود کرسکے؟ اس لیے بڑی حیرت ہوتی ہے جب لوگ مرنے کی دعا کرتے ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ موت کی دعا کیوں کی جاتی ہے؟ جبکہ وہ تو اٹل ہے۔ بلکہ موت تو زندگی کی سب سے بڑی حقیقت ہے۔ ایک ایسی حقیقت جس کو کوئی ٹال نہیں سکتا۔ چونکہ زندگی ایک تھکا دینے والی چیز ہے۔ مشکلات کبھی قدرت کی طرف سے ہمارے گناہوں کی سزا کے طور پر یا پھر ہمارے غلط فیصلوں کی وجہ سے ہماری زند گی میں آتی ہیں۔ مگر ایسی کوئی مشکل نہیں جس کا کوئی حل نہ ہو۔ بس انسان کو خود کو مضبوط کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے تو قرآن میں ایک جگہ فرمایا گیا کہ ’’بے شک ہر مشکل کے بعد آسانی ہے‘‘۔

اگر انسان کامل یقین رکھے تو مشکلات آسان ہونے میں زیادہ دیر نہیں لگتی۔ یہ کامل یقین ہونا چاہیے کہ ہر سیاہ رات کا اختتام خوبصورت سی صبح سے ہوتا ہے۔ اسی طرح جیسے مشکلات آتی ہیں تو اللہ کچھ خوشیوں، کامیابیوں سے بھی تو انسان کو نوازتا ہے، تاکہ وہ بہتر طریقے سے زندگی گزار سکے۔ اسلام سمیت کوئی بھی مذہب خودکشی جیسے قبیح و حرام فعل کی اجازت نہیں دیتا۔

انسان ایک طرف ٹیکنالوجی کی دنیا میں ترقی کرتا جارہا ہے، تو دوسری طرف وہ سماجی اعتبار سے تنہائی کا شکار ہورہا ہے۔ اسی سماجی تنہائی کی بدولت ہی ’’ذہنی صحت‘‘ ایک ایسی بیماری بن چکی ہے جو انسان کو اعصابی اور ذہنی طور پر اتنا کمزور کردیتی ہے کہ انسان اپنی زندگی تک کا خاتمہ کرلیتا ہے۔ پاکستان میں بھی 5 کروڑ افراد ذہنی امراض کا شکار ہیں، جن میں بالغ افراد کی تعداد ڈیڑھ سے ساڑھے 3 کروڑ ہے۔ انسان ڈپریشن اور شیزوفرینیا جیسے امراض کا شکار ہوجاتا ہے۔

پاکستان میں 2001 میں مینٹل ہیلتھ آرڈیننس جاری کیا گیا، لیکن آج تک اس آرڈیننس کو درست طریقے سے نافذ نہیں کیا گیا۔ نہ ہی عوام کو اس سے متعلق شعور دیا گیا۔ بطور معاشرہ ہمارا فرض ہے کہ ہم ایک دوسرے کے مسائل کو سمجھیں اور اس کو حل کرنے کی کوشش کریں۔ مگر ہمارے پاس کسی کو بھی سننے کا وقت نہیں ہے۔ بلکہ کسی کی خودکشی پر اس بات پر تبصرہ کرنے کا وقت ضرور ہوتا ہے کہ آیا یہ انسان جنت میں جائے گا یا دوزخ میں؟ جنت اور دوزخ کا معاملہ تو رب ہی بہتر سمجھتا ہے۔ ہم انسان ہیں اور ہمیں انسان بن کر ہی کسی دوسرے کی مشکلات کو دور کرنا چاہیے۔ انسان کا پیسہ چلا جائے تو واپس آجاتا ہے، اگر کوئی رشتہ ٹوٹ جائے تو جڑ سکتا ہے، مگر یہ زندگی چلی گئی تو واپس نہیں آتی۔

زندگی اللہ کی سب سے بڑی نعمت ہے۔ مشکلات ضرور آتی ہیں لیکن اچھا وقت بھی ضرور آتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے رویوں سے دوسروں کی زندگی میں آسانیاں پیدا کریں، تاکہ مشکل میں کسی کی مدد کرسکیں۔

نوٹ: روزنامہ رہبر گلگت بلتستان اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ
[email protected]پر ای میل کردیجیے۔

تحریر : ندا ڈھلوں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں