462

معاشرے کی تباہ کاریاں بہت عروج پر ہیں ہمیں غور کرنے کی اشد ضرورت ہیں، !تحریر یاسر دانیال صابری

 .وہ کونسے غلط اطوار ہیں جو ہم میں نہیں پائے جاتے؟ وہ کونسی بد خلقیات ہیں جن کی ہم میں کثرت نہیں؟ ظلم و زیادتی، فساد،حسد، حق تلفی اور مفاد پرستی کیا ہمارا اجتماعی فعل نہیں ؟ منشیات کے بازار، ہوس کے اڈے ، شراب خانے ، جوا ، چوری، ڈاکہ زنی، قتل وغارتگری،زنا کاری، رشوت خوری، سود و حرام خوری، دھوکہ دہی، بددیانتی، جھوٹ،خوشامد، دوغلے پن، حرص، تمہ، لالچ، ملاوٹ، ناپ تول میں کمی,کلچر کی پامالی آخر وہ کون سا اخلاقی مرض ہے جو ہم میں نہیں پایا جاتا؟ بد عنوانی و کرپشن ,جھوٹ ,حسد ,بغض ,کینہ,اور خود غرضی کا ایسا کونسا طریقہ ہے جو ہم نے ایجاد نہیں کیا؟ دھوکہ دہی، لالچی ,فریب اور مفاد پرستی کی ایسی کونسی قسم ہے جو ہمارے مسلم معاشرہ میں زوروں پر نہیں؟ تشدد، تعصب، عصبیت اور انسان دشمنی کے ایسے کونسے مظاہرے ہیں جو ہمارے اسلامی معاشرہ میں دیکھنے کو نہیں ملتے؟ ان سوالات کا جواب یقینا ہاں میں ملے گا۔یہ سب کچھ اور اس کے علاوہ اور بھی بہت کچھ برا ہے ہمارے معاشرہ میں مگر پھر بھی ہم مسلمان کہلوانے میں ذرا شرم محسوس نہیں کرتے۔
جب قوموں میں بد عملی، بد خلقی، غفلت، بے راہ روی اجتماعی طور پر گھر کر جاتی ہے تو تباہی و بربادی اس کا مقدر بن جاتی ہے
انسان نے یقیناہر دور میں کوشش کی ہے کہ اس کی اجتماعی معاشرتی زندگی مستحکم رہے۔اور اتحاد ,ایمان اور تنظیم برقرار رہے قائداعظم کا بھی فرمان تھا.. جب حیاتِ انسانی کے ارتقا پر نظر ڈالیں تو ہمیں اِس کا رخ اجتماعیت کی طرف ہی نظر آتا ہے۔ تاریخ انسانی نے مختلف معاشرے تشکیل دیئے اور گردشِ زمانہ نے مختلف معاشروں کو پیوند خاک بھی کیا جب وہ اجتماعی طور پر فطرت کے خلاف چلیں ، جب وہ قانون قدرت کو توڑ کر اس کی نافرمان و گستاخ بنی اور خدا کے متعین کردہ اصولوں سے انحراف کیا اور دوری اختیار کی ۔ بنی نوع انسان کو انفرادی بدعملی کی سزا دنیا میں نہیں ملتی اس کا حساب کتاب آخرت میں ہے مگر جب قومیں اجتماعی طور پر بدعمل ہو جائیں تو اس کی سزاء دنیا ہی میں مل جایا کرتی ہے۔ جب قوموں میں بد عملی، بد خلقی، غفلت، بے راہ روی اجتماعی طور پر گھر کر جاتی ہے تو تباہی و بربادی اس کا مقدر بن جاتی ہے اور تاریخ نے ایسے کئی مناظر دیکھے بھی ہیں۔ قرآن کریم نے بھی مختلف قوموں کی تباہی کا ذِکر کیا ہے جن میں اخلاقی خرابیاں اجتماعی طور پر گھر کر گئی تھیں……
آج کسکے گھر لوٹے جا رہے ہیں؟(کشمیر) کس کے وسائل پر قبضے ہو رہے ہیں؟ آج دنیا میںچار سُو کس کی نسل کشی کی جا رہی ہے؟ آج ہر سو جلی نعشیں، بکھرے لاشے، کٹے اعضاء، بین کرتی مائیں، سسکتی بہنیں، اجڑے سہاگ، بلکتے بے سہارا بچے کس ملت سے وابستہ ہیں؟ آج دنیا میں کونسی قوم ظلم و جبر کی چکی میں پس رہی ہے؟ کیا کبھی کسی نے یہ سوچا؟ کیا یہ سب کچھ دیکھ کے کبھی کسی کا خون کھولا؟ کب بیدار ہو گی یہ سوئی بے جان ملت؟ کب کھولیں گی اس مردہ بے ضمیر امت کی آنکھیں؟ اگر کسی بہت گہری نیند سوئے آدمی کو ٹارچر کریں یا کوئی کیڑامکوڑا بھی ڈس لے تو وہ فوراً بیدار ہو کر ہوشیار ہو جاتا ہے ۔مگر بد نصیب قوم ایسی مدہوش نیند سوئی ہے کہ اتنے بڑے بڑے ٹارچر پہنچنے پر بھی قوم میں ذرا جنبش نہیں آئی کہ وہ کروٹ ہی بدل لے۔ جیسے کسی مردہ کو جتنا مرضی ٹارچر کرتے رہو اس میں ذرا جنبش نہیں آتی بالکل یہی حال ہمارا ہے اسلئے تو برصغیر میں 800 سال مسلمانوں کی حکومت کی سستی اور کاہلی برطانوئ راج اب بھی یہی حالتہونے کو ہے۔ ہم غفلت میں پڑے اتنی گہری نیند سورہے ہیں کہ ہماری ملت کے جسم پر کتنے بڑے بڑے ٹارچر اور زخم آئے مگر ہم میں ذرا حرکت نہیں آئی۔ یوں لگتا ہے جیسے ہم بیدار ہونے کیلئے اسرافیل علیہ السلام کے ثور پھونکنے کی آواز کے منتظر ہوں کہ ہمیں اگر ثور کی آواز سنائی دے گئی تو ہم اٹھیں گے اس سے پہلے ہم اٹھنے والے نہیںمگر اس وقت اٹھنا ہمیں کوئی فائدہ نہیں دے گا اور نہ ہمارے کسی مفاد میں ہو گا۔ناروے کی افسوس ناک واقعہ..اس سے پہلے…
کتاب رحمت کو آگ لگا کراور پیغمبر رحمت ص کے خاکے تراش کر کے مسلمانوں کو ذہنی اذیت دی جارہی ہے تب بھی غفلت کی نیند سوئی قوم بیدار نہیں ہو رہی۔ ہمارے ضمیر مردہ ہو چکے ، ہماری غیرت دم توڑ چکی۔ اس کی ایک زندہ مثال …2018کی پیش کرتا ہوں کہ وہ کمینہ انسان امریکی جنرل ہوڈ نے گوانتاموبے کے قید خانہ میں مسلمانوں کواذیت دینے کیلئے باتھ روموں میں ٹیشو کی جگہ قرآن مقدس کے اوراق رکھوائے ۔ اس عمل پر تو قرون عالم میں مسلمانوں کو آگ لگ جانی چاہیے تھی اور غفلت سے اٹھ کھڑے ہو کر اس کمینے کو کیفر کردار تک پہنچاتے مگر افسوس کہ اسکے برعکس ہم نے کیا کیا ۔ یہی کمینہ جنرل جب خودکو اسلام کا قلعہ کہنے والے ملک پاکستان آیا تو اُس دور کے حکمرانوں نے اس کے قدموں کے نیچے سرخ قالین بچھا کر اس کا خوب استقبال کیا۔ یہ اس کی زندہ مثال ہے کہ ہماری غیرت مردہ اور ضمیر دفن ہو چکا ہےہم پر دنیا لعنت ہنستی ہے
یہ تمام قرائن و شواہد یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہم مسلمانوں سے ہرگز راضی نہیں اور اسی وجہ سے امتِ مسلمہ ہر جگہ ذلیل و خوا ر ہو رہی ہے۔جب ہم لمبی لمبی ، گڑ گڑا کر دعائیں کرتے ہیں اور کہتے ہیں:یا الٰہی ! ہمارا حال دیکھ ، تو حکم ہوتا ہے تُو اپنا نامہ اعمال دیکھ۔ ایک انسان غربت کی زیست میں محنت کر کے ڈگری لے کر رسوائی کے منہ میں چلا جاتا ہے ہمارے تمام اداروں میں زہریلے سانپ بیھٹے ہوئے ہیں اور سفید کالر جرم کرتے رہتے ہیں ان کا ایمان مکمل کمزور ان کا دین کامل نہیں ہمارا مستقبل خراب ان آفسروں کی سبب ہیں یہ اپنے آپ کو مسلمان کہلاتے ہیں میں لعنت بھجتا ہوں
دو سر ی قوموں سے نصیحت اور عبرت حاصل نہ کرنے کی وجہ سے قدرت ایسے ہی عذاب نازل کیا کرتی ہے۔ضروری نہیں کہ آسمان سے پتھر بر سیں یا زمین الٹ جائے اور خوفناک چنگھاڑ سنائی دے۔یہ عذاب کبھی تاتاریوں تو کبھی عیسائیوں، ہلاکو خان، چنگیز خاں ،تیمور خان کے حملوں کی صورت میں بھی ظاہر ہوتا ہے اور کشمیر پر ظلم کی شکل میں بھی. اب امریکہ،ہنداوراسرا ئیل ، طاغوتی و سامراجی قوتوں کے تسلط کی شکل میںہم پر مسلط ہے۔ قدرت اسی طرح ایک غالب طاقت کو دوسری طاقت سے دفع کیا کرتی ہے اور سزا اور عقوبت کیلئے ظالم بادشاہوں کو مسلط کر دیتی ہے۔
آج ہمارے اندر ایمان کمزور ہے۔مغرب کی مکاری اور تہذیب و فلسفہ نے ہمارے ایمان کی جڑوں کو کھوکھلا کر دیا ہے۔ میڈیا کی وہشی فحشی ڈرامے ۔خوتین کا مغلوب ہونا درد مندانہ عالم ہیں ۔پیار کی حدود گھر برباد .خودکشی عام ۔مذہب سے دوری عورت لالچی مرد کی غریبی برداشت نہیں اور امیروں کی ترقی کی دیکھا دیکھی عورت مرد سے تلاق اولاد بے سہارا …۔ہم صرف نام کے مسلمان رہ گئے ہیں۔ہمارے کردار یہود و نصاریٰ سے بھی گئے گزرے ہیں۔معزرت میرے جزبات ایسے ہیں.. ہم سے تو سِکھ بہتر ہیں جو اپنے گرو کی ایک ایک ادا کو اپنائے ہوئے ہیں، گلگت میں بھی آئے.سکھ اس وقت دنیا میں جہاں بھی ہیں، جس عہدہ ، جس منصب پر بھی ہیں وہ اپنے گرو کا نمونہ پیش کرتے ہیں ، وہ دنیا کے بڑے سے بڑے منصب پر پہنچ کر بھی اپنے گرو کی سی داڑھی اور سر پر گرو کی سی پگ رکھنے سے نفرت و ہتک محسوس نہیں کرتے۔ہمارے ہاں مجموعی افراد ملت تو دور کی بات جب ہم برصغیر اور بعض عرب ممالک سے باہر کے مذہبی رہنما، دینی اسکالرز، روحانی پیشوا ، مساجد کے امام و خطیب دیکھیں تو ان کے چہروں پر نبی کریم ص کی سنت دکھائی نہیں دیتی۔ یہ حال ہے ہمارے مذہبی پیشواؤں کا۔ ہماری قوم کا اجتماعی رنگ و روپ مغرب زدہ ہے، اسلام زدہ نہیں۔ آپ ملک کے جس محکمہ، ادارہ، دفتر، بنک، اسکول ، کالج و یونیورسٹی میں چلے جائیں آپ کو مغربی مقلد نظر آئیں گے ۔سب آپ کو مغربی رنگ و روپ میں ڈھلے نظر پڑیں گے۔کلین شیو، پینٹ شرٹ، ٹائی باندھے بظاہر مغربی ، ایمان اور رسول اللہ ص سے محبت ان کے اندر ایک بند کونے میں چھپی ہوتی ہے کہ بظاہر کوئی دیکھ کر نہ کہہ سکے کہ ہم مسلمان ہیں، جبکہ رسول اللہ ص سے وابستگی و محبت کا تقاضا تو یہ ہے کہ دنیا آپ کو دورسے دیکھ کر جان جائے کہ یہ محمد کریم ص کا غلام ہے شرم کے مارے قلم بند کرتا ہوں اللہ قوم کو ملت اسلام کے پیرہ دار بنا دیں آمین ..

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں