312

5فروری، یوم یکجہتی کشمیر ، از قلم: پروفیسر ڈاکٹر عطاء اللہ شاہ، شیخ الجامع قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی

تنازعہ کشمیر تقسیم ہند کا یک حل طلب مسئلہ ہے۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیر کے الحاق کا فیصلہ وہاں کے عوام کی خود ارادیت کے ذریعے کیا جائے گا۔ لیکن بد قسمتی سے پچھلے 72برسوں سے یہ مسئلہ نہ تو حل ہوسکا اور نہ ہی اقوام متحدہ اور بھارت کی طرف سے اس کو حل کرانے کیلئے کوئی سنجیدہ کوشش کی گئی۔ یہ مسئلہ یقینی طور پر پاکستان اور بھارت کے درمیان کم از کم تین جنگوں کے لڑنے کا بنیاد بنا۔ اور خدا نخواستہ مستقبل میں ایک بڑی ایٹمی جنگ کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ پاکستان کے وزیر اعظم جناب عمران خان نے اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی اداروں میں برملا ان خدشات کا اظہار کیا کہ مسئلہ کشمیر کے حل میں مزید تاخیر خطے میں کشیدگی کا سبب بن رہا ہے۔ جس کی وجہ سے ایک خطرناک جنگ بھی چھڑ سکتی ہے۔ جس کا دائرہ بر صغیر پاک و ہند سے باہر پوری دنیا تک پھیل سکتا ہے۔ اور چونکہ دونوں روایتی حریفوں کے پاس ایٹمی ہتھیار بھی موجود ہیں اسلئے یہ جنگ روایتی جنگ سے بڑھ کر ایٹمی جنگ کی صورت اختیار کرسکتی ہے۔ وزیر اعظم پاکستان نے اقوام متحدہ کو اس مسئلے کی شدت کا احساس دلاتے ہوئے اقوام متحدہ، امریکہ اور دیگر ممالک کو اس مسئلے کے حل میں اپنا کردار ادا کرنے پر زور دیا ہے۔
بدقسمتی سے بھارت نے اس مسئلے کو حل کرانے کی بجائے مودی حکومت نے صدارتی آرڈیننس کے ذریعے کشمیر کے متنازعہ حیثیت کو ختم کیاجس کے خلاف پوری وادی کے لوگ سراپا احتجاج ہیں۔ مودی حکومت نے نہ صرف کشمیریوں کا مکمل لاک ڈاؤن کیا۔بلکہ ان کو اپنے گھروں تک محدود کیا ہے اور کرفیو کے ذریعے لوگوں کی نقل و حرکت پر پابندی لگائی ہے اور اب یہاں کے مکینوں کو گھروں تک محصور کیا ہوا ہے۔ جس کی وجہ سے نہ تو کشمیر کے اندر ملکی اور بین الاقوامی میڈیا کو رسائی حاصل ہے۔ اور نہ ہی وہاں انٹرنیٹ کی سہولت موجودہے جس کے ذریعے وہاں کے محصور عوام دنیا سے رابطہ کر سکیں۔ اس نئے کالے قانون کی رو سے کشمیر کی جدا گانہ ریاستی حیثیت کو ختم کرانے، وہاں باہر سے لوگوں کی آباد کاری ا ور جائیداد کی خرید و فروخت کوممکن بنایا گیا جب کہ اس سے قبل صرف ریاستی باشندوں کو یہ حق حاصل تھا۔ اس غیر قانونی اقدام کا بنیادی مقصد غیر کشمیریوں کی ریاست کے اندر آباد کار ی ہے۔ یہ بالکل وہی قدم ہے جو اسرائیل نے فلسطین کے اندر غزہ اور دیگر علاقوں میں اٹھایا اور پوری دنیا سے یہودیوں کو فلسطین میں آباد کرکے صیہونی ریاست کا دائرہ کار بڑھادیا۔ بھارتی وزیر اعظم مودی نے اسرائیلی وزیر اعظم کے ساتھ ملک کر اسی طرح کا منصوبہ کشمیر (مقبوضہ) میں بھی شروع کر دیا تاکہ بتدریج کشمیریوں کو اقلیت میں تبدیل کرے۔ بھارت کا یہ قدم یقینا اقوام متحدہ کے قراردادوں کی سراسر مخالفت ہے لیکن دکھ کی بات یہ ہے کہ دنیا بھارت کے اس بزدلانہ اور غیر قانونی حرکت پر خاموش ہے۔ اس وقت کشمیریوں پر ہندوستانی فوج کو مسلط کراکے ان کی زندگیوں کو اجیرن بنادیا گیا ہے۔
مودی حکومت کی اسلام دشمنی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ حال ہی میں نافذ ہونے والی شہریت کے بل میں اس حکومت نے مسلمانوں کو شہریت دینے کیلئے جو شرطیں رکھیں وہ درحقیقت ہندوستان کے کروڑوں مسلمانوں کو شہریت کے حق سے محروم کرانے کے مترادف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پورے بھارت میں مسلمان اور ان کے ساتھ بہت بڑی تعداد میں ہندو اس بل کی مخالف میں مظاہرے کر رہے ہیں۔ ان مظاہروں میں تمام مکتبہ فکر کے علماء اور زندگی کے تمام شعبوں سے منسلک افراد(خواتین ومرد) نے شرکت کرکے اس بل کو بھارت کی تقسیم کی بنیاد سمجھتے ہوئے مودی حکومت سے اس کو فی الفور واپس کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ آج ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی انتہائی غیر انسانی سلوک اور غیر قانونی رویہ سے اس بات کاشدت سے احساس ہورہا ہے کہ پاکستان کا وجود مسلمانان ہند کے لئے ایک نعمت سے کم نہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی اور آر ایس ایس کے تشدد پسندانہ رویے سے یہ با ت کھل کر سامنے آگئی ہے کہ ہندو ذہنیت میں کسی طرح بھی مسلمانوں کی آزادی کا تصور نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قائد اعظم نے ان لوگوں کے بارے میں جنہوں نے قیام پاکستان کی مخالفت کی تھی بر ملا کہا تھا کہ ان کی آئندہ نسلیں ہندوستان کو اپنی وفاداریاں جتاتے رہیں گے۔
آج کم وبیش 72سال گزرنے کے باوجود ہندوستان کے مسلمانوں کو وہاں اقلیت کی حیثیت بھی نہیں مل رہی ہے اور ان کی قومیت اور شہریت کو متنازعہ بنا کر ان کو یہ احساس دلایا جارہا ہے کہ بھارت میں ان کیلئے کوئی جگہ نہیں۔ یہ اس امر کو ثابت کر رہا ہے کہ قائد اعظم کی رہنمائی میں مسلمانوں کیلئے ایک جداگانہ مملکت کا قیام مسلمانان ہند کی بقاء کیلئے ناگزیر تھا۔
الحمد اللہ آج ملک خداداد پاکستان 22کروڑ مسلمانوں اور اس میں رہنے والی دیگر اقلیتوں کیلئے ایک خطہ بے نظیر ہے جس کے اندر ہم سب آزادانہ طور پر سانس لے رہے ہیں اور ہماری بہادر اور نڈر فوج ہماری سرحدوں کی حفاظت پر مامور ہوتے ہوئے اس کی دفاع کیلئے ہر دم چوکس اور تیار ہیں۔ دنیا کی یہ بہادر اور انتہائی پیشہ ورانہ فوج بھارتی فوج کو مزہ چکھانے کیلئے ہر گھڑی تیار ہے۔ جذبہ شہادت اور حب الوطنی سے سرشار پاکستانی فوج یہاں کے عوام کے ساتھ مل کر دشمن کی کسی بھی غلطی کا بھر پور جواب دینے کیلئے ہمہ وقت چوکس و تیار ہے۔
یو م الحاق کشمیر کے حوالے سے جہاں ملک کے دیگر لوگ کشمیر بنے گا پاکستان کی عہد کا اعادہ کرتے ہیں وہاں اس ملک کی جامعات اور دیگر تعلیمی اداروں کے اساتذہ کرام، طلبہ و طالبات اور ملازمین بھی اس دن کشمیریوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ قراقرم یونیورسٹی میں امسال بھی مختلف تقریبات کا اہتمام کیا گیا ہے اور تمام مل کر کشمیریوں کے ساتھ اپنی بھر پور یکجہتی کا اظہار کر تے ہیں۔ اس ضمن میں ہر سال کی طرح اقوام متحدہ اور بھارت سے درج ذیل مطالبات کرتے ہیں۔
۱۔مقبوضہ کشمیر کے اندر بھارتی فوج کی بربریت کو فوری طور پر رکوا کر وہاں معمولات زندگی کو بحال کیا جائے تاکہ لوگ آزادنہ طور پراپنی زندگی گزار سکیں۔
۲۔ مقبوضہ کشمیر کے متنازعہ حیثیت کو بحال کرتے ہوئے آرٹیکل 370کے متنازعہ ترمیم کو فی الفور واپس کرکے ریاست کشمیر کی حیثیت کو برقرار رکھا جائے۔
۳۔ کشمیریوں کو اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق حق خود ارادیت کے ذریعے اپنا فیصلہ کرنے کو یقینی بنایا جائے۔
۴۔ ملکی اور بین الاقوامی میڈیا کو مقبوضہ کشمیر کے اندر رسائی دی جائے تاکہ وہ کشمیریوں کے حالت زار کے بارے میں پوری دنیا کو آگاہ کریں۔
۵۔ بھارتی حکومت فوری طور پر شہریت کا متنازعہ بل واپس کرکے مسلمانوں کی شہریت کو یقینی بنائیں۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ بر صغیر پاک و ہند میں غربت کے خاتمے اور لوگوں کی ترقی و بہبود کیلئے یہاں امن و آشتی کی ضرورت ہے بد قسمتی کی وجہ تنازعہ کشمیر اس پائیدار امن کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج خطے میں کروڑوں لوگ بے چارگی کی زندگی گزاررہے ہیں اورغربت کی چکی میں پس رہے ہیں۔ دوسری طرف دونوں ممالک کے ساتھ ایٹمی ہتھیار کی موجود گی کی وجہ سے خطے اور پوری دنیا پر ایٹمی جنگ کے خطرات منڈلا رہے ہیں۔ چنانچہ ان خطرات سے نکلنے کا واحد رستہ یہی ہے کہ مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کراکر مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کو خود ارادیت کا حق دلایا جائے۔ شاید یہی اس خطے کی بقاء کیلئے انتہائی لازمی امر ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں