340

نیادی مسائل. تحریر.. یاسر دانیال صابری

 پاکستان کا سب سے بڑا قومی مسئلہ بڑھتی ہوئی آبادی ہے۔ اگر آبادی موجودہ رفتار سے بڑھتی رہی تو 2050ءتک پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا چوتھا بڑا ملک بن جائے گا اور سماجی ومعاشی بحران میں پھنس جائے گا۔ آبادی کے بم سے محفوظ رہنے کے لئے اجتماعی کاوشوں کی ضرورت ہے۔ اگر تعلیم پر خصوصی توجہ دی جائے تو شعور آنے سے مرد وزن فیملی پلاننگ کی جانب زیادہ توجہ دیں گے۔ پاکستان بنگلہ دیش کی طرح علماءکی معاونت حاصل کرکے عوام کو فیملی پلاننگ کی جانب مائل کرسکتے ہیں۔ وزیراعظم پاکستان اس اہم قومی مسئلے میں خصوصی دلچسپی لیں۔ پاکستان کا دوسرا بڑا قومی مسئلہ فوڈ سکیورٹی ہے۔ 75 فیصد آبادی دیہاتوں میں رہتی ہے جس کا انحصار زراعت پر ہے۔ 2000ءسے 2014ءتک زراعت کی اوسط گروتھ 2.7 فیصد رہی ہے جو ترقی یافتہ ملکوں کے مقابلے میں حیران کن حد تک کم ہے۔ حکومتیں نیشنل فوڈ سکیورٹی پالیسی تشکیل دینے میں ناکام رہی ہیں۔ پاکستان کے عوام کو خالص خوراک، صاف پانی دستیاب نہیں ہے۔

کروڑوں غریب عوام کو دو وقت کی روٹی میسر نہیں۔ اگر زراعت کی ترقی پر خصوصی توجہ دی جاتی تو پاکستان دنیا کا خوشحال ملک ہوتا اور ہر شہری کو پیٹ بھر کر کھانا میسر ہوتا۔ لاکھوں ایکڑ زمین بنجر پڑی ہے جسے ڈیم تعمیر کرکے سیراب کیا جاسکتا ہے۔ لائیو سٹاک میں بڑے امکانات ہیں۔ پھل اور سبزیاں برآمد کرکے زرمبادلہ کمایا جا سکتا ہے۔ حکومت اگر خصوصی توجہ دے تو فوڈ سکیورٹی کا مسئلہ حل کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان کا ایک اور قومی مسئلہ انرجی کا بحران ہے جو گزشتہ حکومتوں کی ناقص منصوبہ بندی، کرپشن اور غلط ترجیحات کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ اگر ہائیڈرو پاور کے منصوبے بروقت بنائے جاتے تو آج بجلی کی قلت کا مسئلہ پیدا نہ ہوتا اور عوام کو بجلی سستے داموں مل رہی ہوتی۔ ایک رپورٹ کے مطابق ترقی پذیر ملکوں میں انرجی کی طلب میں 2030ءتک 40 فیصد اضافہ ہوجائے گا۔ پاکستان میں جس شرح سے آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے بجلی کی طلب میں بھی غیر معمولی اضافے کی توقع ہے۔

پاکستان تیل اور گیس سے بجلی پیدا کررہا ہے جس کی وجہ سے انرجی کا بحران شدید تر ہو سکتا ہے۔ پاکستان کے پاس ہائیڈرو پاور جنریشن کی جو صلاحیت موجود ہے اس سے صرف 15 فیصد فائدہ اُٹھایا جا رہا ہے۔ پانی، کوئلے، ہوا اور سورج سے انرجی پیدا کرکے ہی بجلی کے بحران پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ دہشت گردی پاکستان کا ایک اور بڑا مسئلہ ہے جس کی وجہ سے پاکستان کو ایک سو ارب ڈالر کا معاشی نقصان پہنچ چکا ہے۔ ہزاروں فوجی اور سویلین شہید ہو چکے ہیں۔

دہشت گردی کی وجہ سے سرمایہ کاری رکی ہوئی ہے۔ پاک فوج دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑرہی ہے۔ پوری قوم کو اس جنگ میں تعاون کرنا چاہئے تاکہ اس ناسور کو جڑ سے اُکھاڑ کر معاشی ترقی کی رفتار کو تیز کیا جا سکے۔ سماجی معاشی عدم استحکام پاکستان کا بڑا قومی مسئلہ ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان ابھی تک اپنے پاﺅں پر کھڑا نہیں ہو سکا۔ حکومت کے سالانہ اکنامک سروے کے مطابق 2013ءمیں جی ڈی پی گروتھ 3.6 فیصد رہی جو گزشتہ سال 4.4 فیصد تھی۔

پاکستانی روپے کی قیمت گر رہی ہے جس کی وجہ سے افراط زر اور بیرونی قرضے بڑھ رہے ہیں۔ پاکستان کے 60 فیصد شہری غربت کی لکیر کے نیچے رہنے پر مجبور ہیں۔ ان کو خوراک، تعلیم اور صحت کی سہولتیں میسر نہیں ہیں۔ زراعت اور صنعت کے شعبے انحطاط پذیر ہیں۔ نوجوان بے روزگار ہیں۔ بیرونی قرضے بڑھتے جارہے ہیں۔ پاکستان کو منصفانہ شراکتی معاشی نظام کی جانب لوٹنا پڑے گا اور ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنا پڑے گا۔

قومی مسائل پر توجہ دینے کی پہلی ذمے داری وزیراعظم کی ہوتی ہے۔ وہ ملک کے وسیع تر مفاد میں قومی ترجیحات کا تعین کرتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ موجودہ حکومت کی ساری توجہ میٹروز اور موٹرویز پر ہے جن کی اہمیت اپنی جگہ مگر ان کو دوسرے اہم قومی مسائل پر ترجیح نہیں دی جاسکتی۔ حکومت کے بعد اپوزیشن کا فرض ہوتا ہے کہ وہ حکومت کی کارکردگی پر کڑی نظر رکھے اور اسے مجبور کرے کہ وہ ترجیحات کا درست تعین کرے اور ان قومی مسائل کو نظرانداز نہ کرے جو ملک استحکام اور معاشی ترقی کے لئے ضروری ہیں۔ افسوس اپوزیشن کی جماعتیں بھی قومی مسائل کو بری طرح نظر انداز کر رہی ہیں۔ سیاسی اشرافیہ میں نیشلزم کا فقدان ہے اور وہ انفرادی گروہی و جماعتی مفادات کی اسیر ہے۔

ان حالات میں میڈیا پر ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ قومی مسائل پر فوکس کرے اور حکومت پر دباﺅ ڈالے کہ وہ قومی مسائل کو نظر انداز نہ کرے مگر افسوس پاکستانی میڈیا بھی عارضی اور وقتی ایشوز پر سارا وقت صرف کر رہا ہے۔ اس کا دعویٰ یہ ہے کہ عوام قومی مسائل کی بجائے کرنٹ آفیرز میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں اس لئے میڈیا کاروباری مفاد کے پیش نظر عوام کو مطمئن کرنے پر مجبور ہے۔ پاکستان کے ہر فرد اور ادارے پر قومی ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ذاتی اور تجارتی مفاد کے ساتھ ساتھ قومی مفاد کو بھی اہمیت دے۔ سول سوسائیٹی بھی قومی مسائل کے بارے میں قابل ذکر کردار ادا کرسکتی ہے۔ سول سوسائٹی اگر نگران کا کردار ادا کرے اور قومی مسائل کے بارے میں رائے عامہ کو بیدار کرے تو حکومت اور اداروں پر دباﺅ بڑھ سکتا ہے اور وہ قومی مسائل کے سلسلے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کر سکتے ہیں ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں