46

ایس سی او اجلاس2024 ہ : اقتصادی طور پر مربوط خطے کے مشترکہ وژن کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے،شہبازشریف

ایس سی او اجلاس2024 ہ : اقتصادی طور پر مربوط خطے کے مشترکہ وژن کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے، عوامی وثقافتی رابطوں کے تبادلوں کو فروغ دینے کے حامی ہیں، وزیراعظم شہبازشریف

اسلام آباد: وزیراعظم محمدشہبازشریف نے کہا ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کی طاقت اس کی سیاسی اور اقتصادی جہتوں اور بھرپور ثقافتی تنوع میں ہے، خطے میں باہمی رابطوں کے منصوبوں کوسرمایہ کاری کے تناظرمیں دیکھنے کی ضرورت ہے جو اقتصادی طور پر مربوط خطے کے مشترکہ وژن کو آگے بڑھانے کے لیے اہم ہیں، مربوط اور خوشحال خطے کے لیے مل کر کام کرنے سے تمام رکن ممالک کو فائدہ ہوگا، پاکستان رکن ممالک کے درمیان عوامی وثقافتی رابطوں کے تبادلوں کو فروغ دینے کا بھرپورحامی ہے، متحد ہوکر ہم سماجی واقتصادی ترقی، علاقائی امن واستحکام اوراپنے شہریوں کے معیارزندگی کوبہترکرسکتے ہیں، غیر متوقع موسمیاتی تبدیلیاں انسانیت کے وجود کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں، ایس سی او ممالک کے درمیان معاہدوں اورایم اویوز کوعملی شکل دینے کاوقت آگیاہے۔
بدھ کوشنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہان حکومت کی کونسل کے 23 ویں اجلاس میں اپنے خطاب میں وزیراعظم نے کہاکہ ہم اپنے معززمہمانوں کو پاکستان کے خوبصورت دارالحکومت اسلام آبادمیں خوش آمدید کہتے ہیں، ایس سی اوکے سربراہان حکومت کے اس شانداراجتماع کی میزبانی ہمارے لئے اعزاز کی بات ہے جودنیا کی 40 فیصدآبادی کی نمائندگی کررہاہے ،ایس سی او شنگھائی سپرٹ کے مطابق پائیدارترقی ، خوشحالی ، اجتماعی سلامتی اورباہمی استفادہ پرمبنی تعاون کے مشترکہ عزم کی عکاسی کررہاہے۔ آج کا اجلاس ہمارے متنوع اقوام کے درمیان تعلقات اورتعاون کی قوت کا عکاس ہے، متحدہوکرہم سماجی واقتصادی ترقی، علاقائی امنواستحکام اوراپنے شہریوں کے معیارزندگی کوبہترکرسکتے ہیں۔اس اہم موقع کوتبادلہ خیالات، اپنے بہترین تجربات کے تبادلہ، اورجامع عملی منصوبوں کوعملی شکل دینے کیلئے استعمال کرنے کی ضرورت ہے جس سے ہماری معیشتوں اورمعاشروں کو کوفائدہ پہنچے گا۔مجھے امیدہے کہ اجلاس میں سیرحاصل گفتگو کے نتائج ایس سی اوخطہ کے عوام کیلئے مفید اوردوررس ہوں گے۔

وزیراعظم نے کہاکہ ہم تاریخی تبدیلیوں کاسامنا کررہے ہیں جہاں تیزترتبدیلیاں سماجی، سیاسی،معاشی اورسلامتی کے منظرنامہ کوبدل رہے ہیں۔ مجھے پورایقین ہے کہ ہم اجتماعی دانش سے تمام رکن ممالک کے عوام کو زیادہ خوشحال ، مستحکم اورمحفوظ مستقبل دینے کی استعدادرکھتے ہیں۔وزیراعظم نے کہاکہ گزشتہ سال جب پاکستان نے اس باوقار فورم کی صدارت سنبھالی، تو ہم نے علاقائی امن و استحکام، باہمی روابط اور پائیدار ترقی کے شعبوں میں اپنی ترجیحات کا اعادہ کیا اور سماجی و ثقافتی اقدامات کو فروغ دیا، جو ہمارے خیال میں تنظیم کے مستقبل اور ہمارے اجتماعی ترقی کیلئے اہمیت کے حامل ہیں، اپنے برادر رکن ممالک کی مدد سے ہم اس راہ پر آگے بڑھنے میں کامیاب ہوئے ہیں جس کی جھلک اجلاس کے مشترکہ اعلامیے میں نظر آتی ہے جو متعلقہ مالی معاونت کے طریقہ کار، ماحول دوست ترقی، ماحولیاتی تحفظ کے شعبوں میں ہم آہنگی، تعلیمی اور سیاحتی روابط کے ذریعے سماجی و ثقافتی روابط کو بڑھانے کے ساتھ ساتھ غربت سے نمٹنے اور ہماری خواتین اور نوجوانوں کو بااختیار بنانے کے لیے بہترین طریقوں کے اشتراک کے ذریعے پائیدار اور جامع اقتصادی ترقی کو مضبوط بنانے کے ہمارے مشترکہ وژن کی عکاسی کررہاہے۔
وزیراعظم نے کہاکہ پاکستان کی صدارت کے دوران کئی مثبت اور مستقبل کے حوالے سے اقدامات کیے گئے، ان میں ایس سی او کی بنیادی اقتصادی ترجیحی بنیاد کے قیام کا تصور، تنظیم کے رکن ممالک کے درمیان تجارت کے فروغ کیلئے تنظیموں کے درمیان تعاون، تخلیقی معیشت کی ترقی کے میدان میں کے رکن ممالک کے درمیان تعاون کا فریم ورک اور ایس سی او نیو اکنامک ڈائیلاگ پروگرام جیسے اقدامات شامل ہیں۔وزیراعظم نے اجتماعی طور پر ان تصورات کے عملی نفاذ کیلئے لائحہ ہائے عمل کی تجویز دیتے ہوئے کہاکہ اس کے ذریعے اقتصادی اور تجارتی شعبوں میں رکن ممالک کے درمیان موجودہ تعاون کو مضبوط اور گہرا کیا جا سکتا ہے۔
وزیراعظم نے کہاکہ شنگھائی تعاون تنظیم کے حوالہ سے افغانستان اہم ملک ہے ، سماجی اور اقتصادی طور پر مستحکم افغانستان تمام رکن ممالک کو بہتر رابطوں کے لیے قابل عمل اور اقتصادی طور پر فائدہ مند تجارتی اور ٹرانزٹراہداریاں پیش کر سکتا ہے، اس مقصد کے حصول کے لیے مستحکم افغانستان بہت ضروری ہے،بین الاقوامی برادری کوجہاں انسانی بحران اور معاشی بدحالی کو روکنے کے لیے افغانستان کی عبوری حکومت کی مدد کے لیے درکار مدد فراہم کرنی چاہیے، وہیں اسے افغان عبوری حکومت سے سیاسی شمولیت کو فروغ دینے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے کے ساتھ ساتھ اس بات کو یقینی بنانے کا بھی مطالبہ کرنا چاہیے کہ افغانستانکی سرزمین کسی بھی ادارے یاتنظیم کے ذریعے اس کے پڑوسیوں کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہ ہوں۔

وزیراعظم نے کہاکہ اقتصادی تعاون ایس سی او کااہم نکتہ ہے، ٹرانسپورٹ اور توانائی کی راہداری جیسے علاقائی بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں میں سرمایہ کاری اقتصادی انضمام کے لیے بہت ضروری ہے۔پاکستاناس ضمن میں 2030 تک توانائی کے شعبہ میں تعاون کے فروغ کیلئے حکمت عملی سے متعلق شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہان مملکت کی کونسل کے فیصلوں کے ساتھ ساتھ سرمایہ کاروں کی ایسوسی ایشن کے قیام کا خیرمقدم کرتا ہے۔

وزیراعظم نے شنگھائی تعاون تنظیم کے ممالک کی طرف سے رابطوں کے تمام اقدامات کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہاکہ ، پاکستان ایک مضبوط ایس سی او کنیکٹیویٹی فریم ورک کے قیام کی پرزور حمایت کرتا ہے جس سے نہ صرف علاقائی تجارت کے لیے گیٹ وے فراہم ہوگی بلکہ یورو ایشیائی رابطے اور تجارت کے وژن کو بھی اگلی سطح تک لے جایا جاسکے گا، بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو ، چین پاکستان اقتصادی راہداری اور انٹرنیشنل نارتھ سائوتھ کوریڈورجیسے منصوبوں کو سڑکوں، ریلوے اور ڈیجیٹل انفراسٹرکچر پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے رابطوں میں بہتری کے لیے استعمال کیا جاسکتاہے۔
وزیراعظم نے کہاکہ اس طرح کے منصوبوں کوسیاسی تناظرمیں نہیں بلکہ اپنی اجتماعی رابطے کی صلاحیتوں میں سرمایہ کاری کے تناظرمیں دیکھنے کی ضرورت ہے جو اقتصادی طور پر مربوط خطے کے مشترکہ وژن کو آگے بڑھانے کے لیے اہم ہیں، مربوط اور خوشحال خطے کے لیے مل کر کام کرنے سے تمام رکن ممالک کو فائدہ ہوگا۔ وزیراعظم نے کہاکہ غربت کا مقابلہ کرنا نہ صرف اخلاقی ضرورت بلکہ معاشی ترقی اور خوشحالی کا ایک بنیادی محرک ہے۔

شنگھائی تعاون تنظیم کی سرحدوں کے اندر کرہ ارض پر غریب آبادی کی سب سے بڑی تعداد کی موجودگی ہمیں غربت کے خاتمے کے لیے قریبی تعاون کرنے پر مجبور کرتی ہے، ایس سی او کے خصوصی ورکنگ گروپ کے مستقل چیئر کے طور پر غربت سے نمٹنے کے لیے پاکستان نے متعدد مشترکہ سیمینارز، ویبنارز کا انعقاد کیا جس کا مقصد علم اور بہترین طریقوں کے ذریعے غربت سے نمٹنے کیلئے اقدامات کویقینی بنانا ہے ، ہم غربت کی بنیادی وجوہات کو حل کرنے کے لیے اپنی اجتماعی کوششوں میں اپنا کردارجاری رکھیں گے اور رکن ممالک کو اپنی مکمل اقتصادی صلاحیتوں سے استفادہ کرنے ، پائیدار ترقی اور اپنے شہریوں کے مجموعی معیار زندگی کو بہتر بنانے کے قابل بنائیں گے۔
موسمیاتی تبدیلیوں اوراس سے ہونے والے نقصانات کاذکرکرتے ہوئے وزیراعظم نے کہاکہ غیر متوقع موسمیاتی تبدیلیاں انسانیت کے وجود کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں کیونکہ اس کی تباہی بہت زیادہ ہے اور سرحدوں سے ماوراءہے ، موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنا اور ایس سی او کے خطے کے اندر ماحولیات کا تحفظ، پائیدار ترقی، اقتصادی استحکام اور سماجی بہبود کو یقینی بنانے کے لیے مشترکہ اقدامات ضروری ہیں۔

انہوں نے کہاکہ پاکستان موسمیاتی خطرات سے دوچار ممالک میں سرفہرست ہے، پاکستان رکن ممالک کے درمیان ماحولیاتی تعاون کوفروغ دینے اورموسمیاتی موزونیت کاحامی ہے تاکہ ہماری موجودہ اور آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ مستقبل کو یقینی بنایا جا سکے، پاکستان ماحولیاتی تحفظ سے متعلق حال ہی میں ہونے والے ایس سی او معاہدے کا خیرمقدم کرتا ہے اور رکن ممالک پر زور دیتے ہیں کہ وہ علاقائی اور عالمی سطح پر ایسی تمام کوششوں میں فعال طور پر تعاون کویقینی بنائے۔

وزیراعظم نے کہاکہ پاکستان نے ٹیکنالوجی پر مبنی فعال ڈیزاسٹر مینجمنٹ سسٹم کا جدید ماڈل تیار کیا ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلق ہنگامی صورت حال سے پیشگی آگاہی فراہم کررہاہے ، اس نطام نے ہمیں انسانی جانوں کے تحفظ اورقیمتی مادی وسائل کوبچانے کے لیے بروقت اقدامات کرنے کے قابل بنایا ہے۔ پاکستان اس ضمن میں شنگھائی تعاون تنظیم کے ممالک کی متعلقہ وزارتوں اور محکموں کے لیے مشقوں کے انعقاد کا منتظر ہے تاکہ وہ اپنے ممالک میں کے لیے مخصوص آفات سے نمٹنے کے لیے اقدامات کر سکیں۔ وزیراعظم نے کہاکہ یکطرفہ دبائو و تحفظ پسند اقدامات بین الاقوامی قانون کے منافی ہیں جس سے اقتصادی ترقی کو روکنے کے ساتھ ساتھ متاثرہ ممالک کی سائنسی اور تکنیکی ترقی کو غیر متناسب طور پر نقصان ہوتا ہے ۔
بین الاقوامی مالیاتی ڈھانچہ، عالمی تجارت، ٹیکنالوجی کے نظام اور عالمی مساوات کو فروغ دینے کے لیے اصلاحات کی ضرورت ہے، گزشتہ کئی سالوں کے دوران ہم نے شنگھائی تعاون تنظیم کی ترقیاتی تعاون کی بنیاد مضبوط بنائی ہے تاہم یہ احساس بڑھتا جا رہا ہے کہ تنظیم کی امنگوں وتمناوں اور کارکردگی کے درمیان ایک خلا موجود ہے۔ یہ خاص طور پر ان معاہدوں اور ایم او یوز کے نفاذ سے متعلق بھی ہیں جن پر ہم نے دستخط کیے ہیں، اپنی سیاسی خواہشات کو عملی شکل دینے کا وقت آ گیا ہے۔

وزیراعظم نے کہاکہ ایس سی او کنسورشیم آف اکنامک اینالیٹک تھنک ٹینک سکالرز کا ایک اہم فورم ہے جو معیشتوں اور تجارتی رجحانات کی پیچیدگیوں کو سمجھتے ہیں، ان سکالرزکی معلومات علاقائی اقتصادی اور تجارتی منظرناموں کو بہتر بنا سکتی ہیں۔ کنسورشیم کے سربراہ کے طور پر پاکستان نے اس سال مفید تحقیقی کام کی قیادت کی جسے رکن ممالک کے ساتھ شریک بھی کیاگیا۔
وزیراعظم نے کہاکہ ایس سی اوسربراہان حکومت کے طور پر ہمیں اپنے نجی شعبوں کی حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ایس سی اوخطہ میں کاروبار اور سرمایہ کاری کے فروغ کے لیے سازگار ماحول پیدا کیا جا سکے ۔ پاکستان کی فیڈریشن آف چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری نے ایس سی او بزنس کونسل کے تعاون سے 12 ستمبر 2024 کو اسلام آباد میں ایس سی او کے وزرائے خارجہ برائے تجارت کے اجلاس کے موقع پر ایک انتہائی مفید کانفرنس کا انعقاد کیا۔ پاکستان کاروباری برادری کے درمیان رابطوں میں اضافہ کے لیے باقاعدگی سے ایسی تقریبات کے انعقاد کیلئے ایس سی اوبزنس کونسل کی حوصلہ افزائی کرتا ہے ۔
انہوں نے کہاکہ تنظیم کے رکن ممالک کے درمیان باہمی طور پر قابل قبول کرنسیوں میں تصفیہ کی ضرورت کے بارے میں ایک واضح اتفاق موجود ہے ، تنظیم کے کے کچھ رکن ممالک پر یکطرفہ پابندیوں کے پیش نظر ایس سی او کی انٹربینک یونین ،بینکنگ کے مسائل پر بات چیت اور مسائل کے حل کیلئے اہم فورم ہے جو کثیرالجہتی اثرات پرمبنی اقدامات کے ذریعے خطہ میں تجارت کو بڑھاسکتاہے۔
وزیراعظم نبے شنگھائی تعاون تنظیم کی جانب سے متبادل ترقیاتی فنڈنگ میکانزم بنانے کی تجویزکی حمایت کرتے ہوئے کہاکہ اس سے تعطل کا شکار مختلف ترقیاتی اقدامات کو آگے بڑھانے میں مددملیگی ۔ ہم ایس سی او کی پراجیکٹ سرگرمیوں کے لیے مالی تعاون کے طریقہ کار کے بارے میں ایس سی او کونسل آف ہیڈز آف اسٹیٹ کے بروقت فیصلے کا بھی خیر مقدم کرتے ہیں۔

وزیراعظم نے کہاکہ پاکستان کوپختہ یقین ہے کہ ایک مضبوط اور موثر شنگھائی تعاون تنظیم خطے میں پائیدار ترقی کو آگے بڑھا سکتا ہے، پاکستان ایس سی او سیکریٹریٹ اور ایس سی او آر اے ٹی ایس کو مناسب وسائل کی فراہمی سمیت ایس سی او میں اصلاحات اور جدت کے لیے جاری کوششوں کی حمایت کرتا ہے، اس سے تنظیم کے فیصلوں کی اثرپذیری اور نفاذ کی صلاحیتوں میں اضافہ ہوگا۔

وزیراعظم نے کہاکہ شنگھائی تعاون تنظیم کی طاقت اس کی سیاسی اور اقتصادی جہتوں اور بھرپور ثقافتی تنوع میں ہے۔ پاکستان رکن ممالک کے درمیان عوامی وثقافقی رابطوں کے تبادلوں کو فروغ دینے کو اہمیت دیتا ہے۔ باہمی افہام و تفہیم اور احترام کو فروغ دے کر ہم ایسے دیرپا تعاون کی بنیاد رکھ سکتے ہیں جو سرحدوں سے بالاتر ہو اورجس سے ہمارے معاشروں کو تقویت ملے گی۔

بشکریہ: اے پی پی

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں