255

یونس خان بطور بیٹنگ کوچ بھی لمبی اننگز کھیلنے کے خواہاں

یونس خان بطور بیٹنگ کوچ بھی لمبی اننگز کھیلنے کے خواہاں ہیں، سابق کپتان کا کہنا ہے کہ عبوری ذمہ داری کو بھرپور لگن کے ساتھ نبھاتے ہوئے انتخاب درست ثابت کرنا چاہتا ہوں۔

پاکستان کرکٹ کی سب سے بڑی ویب سائٹ www.cricketpakistan.com.pk کے پروگرام ’’کرکٹ کارنر ود سلیم خالق‘‘ میں بات چیت کرتے ہوئے بیٹنگ کوچ یونس خان نے کہاکہ میں چاہتا ہوں کہ میرا بورڈ کے ساتھ کام کرنے کا پہلا تجربہ خوشگوار یادوں کے ساتھ ختم ہو، جو موقع ملا اس سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے میں عبوری ذمہ داری میں اپنا انتخاب درست ثابت کرنے کیلیے پْرعزم ہوں، مستقل کام کرنے کا موقع ملے تو اس سے بڑا کوئی اعزاز نہیں ہوگا۔

انھوں نے کہا کہ مارچ میں پی ایس ایل ملتوی ہونے کے بعد قومی کرکٹرز کو ایکشن میں آنے کا موقع نہیں مل سکا، اگرچہ انھوں نے اپنے طور پر فٹنس پلان پر عمل درآمد کرنے کی کوشش کی ہے، ٹرینرز نے آن لائن ٹیسٹ کے ذریعے بھی ان کو مصروف رکھا، سب کو اچھی طرح معلوم ہے کہ انگلینڈ میں بہتر کارکردگی ان کے کیریئر پر انتہائی مثبت اثرات ڈال سکتی ہے، میں نے وہاں اچھا پرفارم کیا تو وہاں کاؤنٹیز کی نظر میں آیا۔
سابق کپتان نے کہا کہ میں مشکل صورتحال میں کھلاڑیوں کو چیلنجز کیلیے تیار کرنے کی بھرپور کوشش کروں گا، تیاری کیلیے ایک ماہ کافی ہوگا، تکنیک بہتر ہونا اچھی بات لیکن کھلاڑیوں کو ذہنی طور پر مضبوط بنانا زیادہ اہم ہے،گذشتہ کچھ عرصے میں اظہر ، اسد شفیق، بابر، عابد علی اور شان مسعود اچھی اننگز کھیلنے میں کامیاب ہوئے، میری خواہش ہے کہ بیٹسمین ففٹی کو سنچری اور سنچری کو بڑی سنچری اور پھر لیجنڈری اننگز میں بدلیں،وہ ایک بار کریز پر سیٹ ہونے کے بعد اتنے رنز بنائیں جو ٹیم کو بڑے ٹوٹل حاصل کرنے میں مدد دیں اور پاکستان کی فتوحات کا راستہ بنے۔

انھوں نے کہا کہ کارکردگی میں فٹنس کا کردار نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کی وجہ سے کھیل میں تیزی ضرور آئی لیکن فٹنس سمیت بعض پہلو نظر انداز بھی ہوئے ہیں، ہمارے ہاں بہت جلد کھلاڑی کو انٹرنیشنل کرکٹ میں لے آتے ہیں، ظہیر عباس اور جاوید میانداد کی بات اور تھی، وہ آئے اور چھا گئے، میری اور مصباح الحق کی ڈومیسٹک کرکٹ میں طویل جدوجہد کے بعد انٹری ہوئی، موجودہ کرکٹرز میں عابد علی ایک مثال ہیں، وہ مسلسل پرفارم کرکے آئے، ذہنی طور پر تیار بھی تھے، اس لیے انٹرنیشنل کرکٹ میں بھی تسلسل کے ساتھ پرفارم کرنے میں کامیاب ہوئے، کرکٹ میں تیزی آنے کی وجہ سے کرکٹرز کم وقت میں زیادہ کھیلنا چاہتے ہیں، میری کوشش ہوگی کہ کھلاڑیوں کو بحرانی صورتحال میں ثابت قدمی اور فٹنس کلچر کا عادی بناؤں۔

یونس نے کہا کہ کرکٹ کی دنیا میں طویل تعطل کے بعد انگلینڈ کے 3یا4 ٹورز اور کاؤنٹی کرکٹ کھیل کر میں نے جو تجربہ حاصل کیا اسے قومی کرکٹرز تک منتقل کرنے کی کوشش کروں گا،پاک انگلینڈ سیریز پوری دنیا دیکھ رہی ہوگی، خواہش ہے کہ وہاں جتنی پرفارمنس میں نے دی قومی کرکٹرز اس دورے میں مجھ سے بہتر کارکردگی دکھائیں۔

انھوں نے کہا کہ مینجمنٹ میں شامل کچھ لوگوں کے سامنے میرا کیریئر شروع ہوا، چند کرکٹرز کے ساتھ کھیل چکا،دیگر نوجوانوں کی صلاحیتوں سے بھی آگاہ ہوں،ہم اچھی پلاننگ سے بہتر نتائج حاصل کرنے کی کوشش کرینگے۔

ایک سوال پر انھوں نے کہا کہ کورونا وائرس کی وجہ سے پوری دنیا کا ماحول تبدیل ہوچکا، صرف پاکستان اور انگلینڈ کی سیریز ہی نہیں پوری دنیا کے کھیلوں کا مزاج بدل چکا ہے، ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرنا اور کھلاڑیوں کو ذہنی و جسمانی طور پر احتیاطی تدابیر کیلیے تیار کرنا ہے، خدانخواستہ کوئی پلیئر متاثر ہوا تو یہ کھیلوں کیلیے بھی ایک دھچکا ہوگا، کئی ملکوں کے کرکٹ بورڈزجدوجہد کر رہے ہیں،محفوظ کرکٹ کے تجربے کی کامیابی کھیل کے مستقبل کیلیے بھی انتہائی اہمیت کی حامل ہے، صرف پاکستان، انگلینڈ یا آئی سی سی ہی نہیں عالمی اسپورٹس کو بھی اس سیریز کی ضرورت ہے،مجھے خوشی ہے کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے طویل تعطل کے بعد شروع ہونے والی تاریخی سیریز کا حصہ بنوں گا۔

یونس خان اپنی غیر متنازع تقرری پر ملنے والی پذیرائی پر مسرور

یونس خان اپنی غیر متنازع تقرری پر مسرور ہیں،دورئہ انگلینڈ کیلیے بیٹنگ کوچ مقرر ہونے والے سابق کپتان نے کہاکہ پی سی بی کے چیف ایگزیکٹیو وسیم خان نے بڑی عزت افزائی کرتے ہوئے عہدے کیلیے پیشکش کی، تقرری کا فیصلہ ہونے پر نہ صرف ملکی سابق اور موجود کرکٹرز بلکہ ساتھ کھیلنے والے انٹرنیشنل پلیئرز نے بھی مثبت رد عمل کا اظہار کیا،اتنی پذیرائی ملنے کے بعد جذبہ مزید جوان ہوا،میں 2 راتیں سوچتا رہا کہ کیا ایسا کام کروں کہ میری کوچنگ کا نتیجہ انتہائی خوشگوار ہو۔

گاوسکر بارڈر ٹرافی کی طرح پاکستان اور بھارت بھی ہر سال سیریز کھیلیں

یونس خان نے کہا کہ پاک بھارت مقابلے کرکٹ کی جان ہیں، میری تجویز ہے کہ بھارت اور آسٹریلیا کے مابین گاوسکر بارڈر ٹرافی کی طرح پاکستان اور بھارت بھی ہر سال باہمی سیریز کھیلیں، دونوں ملکوں کے نہیں بلکہ دنیا بھر کے شائقین روایتی حریفوں کے مقابلوں میں گہری دلچسپی لیتے ہیں، اس سے کرکٹ کو فروغ اور کرکٹرزکو عروج ملتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ2004 میں دورئہ بھارت کے بعد کا یونس خان پہلے سے بہت مختلف تھا، پڑوسی ملک میں اچھی کارکردگی دکھائی ہم جیت کر آئے تو کاؤنٹیز سمیت دنیائے کرکٹ نے سر آنکھوں پر بٹھایا،انھوں نے کہا کہ پاک بھارت مقابلوں سے صرف کرکٹرز ہی نہیں پورے خطے کی کرکٹ کو فائدہ ہوتا ہے، اس لیے میرا خیال ہے کہ دونوں ٹیموں کے مابین تسلسل سے مقابلے ہونے چاہیئں۔

کوچنگ کے بھی اچھے برے وقت میں مصباح الحق کا ساتھ دوں گا

یونس خان نے کہا ہے کہ کیریئر کی طرح کوچنگ کے بھی اچھے برے وقت میں مصباح الحق کا ساتھ دوں گا، انھوں نے کہا کہ ساتھی آفیشلز وقاریونس،مشتاق احمد اور منصور رانا سب پروفیشنل ہیں، میں نے مصباح الحق کو فون کیا، وقار یونس سے بھی بات ہوئی،میں کیریئر میں مصباح کے ساتھ کھڑا ہوتا تھا، میدان کے اندر اور باہر ہماری مثبت بات ہوتی تھی،اب بھی مل کر پاکستان کو فتوحات کے ٹریک پر لانے کی کوشش کریں گے۔

بابر کویونس عظیم بیٹسمین بنتا دیکھنے کے خواہشمند

یونس خان نے کہا ہے کہ بھارتی کپتان ویرات کوہلی نے 13سال کرکٹ کھیل لی اور نمایاں کارنامے بھی سرانجام دیے،بابر اعظم ابھی 4یا 5سال ہی کھیلے ہیں، ہمیں قومی ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی ٹیم کے کپتان پر توقعات کا بوجھ بڑھانے کے بجائے انھیں وقت دینا ہوگا،میری خواہش ہے کہ بابر اعظم آنے والے وقت میں صرف بہترین بیٹسمین کے طور پر نہ جانے جائیں بلکہ ایک لیجنڈری بیٹسمین اور کرکٹر کے طور پر دنیا میں پہچان بنائیں،مجھے بھی کیریئر کے آغاز میں مستقبل کا انضمام الحق کہا گیا تو میں دباؤ میں آگیا تھا، ڈومیسٹک کرکٹ میں پختہ کار ہونے کے وجہ سے پریشر میں بھی کھیل گیا۔

ایک سوال پر انھوں نے کہا کہ اظہر علی،اسد شفیق اور بابر اعظم کے سوا دیگر بیٹسمینوں کو ابھی تجربہ درکار ہے، میری کوشش ہوگی کی ان کو ڈریسنگ روم میں ایک ایسا ماحول دوں کہ نہ صرف اپنے بلکہ ٹیم، ملک اور فیملیز کیلیے پرفارم کریں،ان کی کارکردگی سے پاکستان کو فتوحات حاصل ہوں، اس کیلیے میں باب وولمر کی کوچنگ کا انداز اپناؤں گا، آنجہانی کوچ کو مجھ سمیت انضمام الحق، محمد یوسف، مصباح الحق،شاہد آفریدی، عبدالرزاق، شعیب ملک اور سلمان بٹ سمیت مختلف مزاج کے کھلاڑیوں کی خدمات حاصل تھیں لیکن انھوں نے سب سے ان کی صلاحیتوں کے مطابق کام لیا۔

مصلحت کے تحت اپنا یوٹیوب چینل شروع کرنے سے گریز کیا

یونس خان کا کہنا ہے کہ مصلحت کے تحت اپنا یو ٹیوب چینل شروع کرنے سے گریز کیا، کئی سابق کرکٹرز کی طرح اپنا چینل متعارف نہ کرانے کے سوال پر انھوں نے کہا کہ میں چینل شروع کرنے کے بہت قریب تھا، پھر سوچا کہ ابھی میں اتنا پختہ کار نہیں ہوا، انٹرنیشنل کرکٹ چھوڑے زیادہ عرصہ نہیں ہوا، ساتھی کرکٹرز کی بہت ساری باتیں معلوم ہیں، روانی میں کوئی نہ کوئی بات منہ سے نکل جاتی ہے، اس لیے یہ بہتر ہوگا کہ ابھی تھوڑا انتظار کروں اورطویل کیریئر کے بعد ملنے والا فرصت کا وقت اپنی فیملی کو دوں۔

چیریٹی تنظیموں کے لیے چندہ مانگنے سے مزاج تبدیل ہوگیا

یونس خان کا کہنا ہے کہ چیریٹی تنظیموں کیلیے چندہ مانگنے سے مزاج تبدیل ہوگیا،آپ کسی سے ایک ڈالر بھی مانگیں تو وہ یہ نہیں دیکھتا کہ میں نے 10ہزار رنز بنائے ہیں،اس کا سوال ہوتا ہے کہ پیسہ کہاں لگاؤ گے، کیا کسی گاؤں میں بجلی آئے گی، ٹیوب ویل لگے گا۔

انھوں نے کہا کہ آپ انٹرنیشنل کرکٹ کھیل رہے ہوں تو لوگ آگے پیچھے ہوتے ہیں،چیریٹی کیلیے مانگنا پڑتا ہے، فلاحی مقاصد کیلیے دیہات میں لوگوں کی حالت دیکھ کر بھی میرے مزاج میں تبدیلی آئی اور بہت کچھ سیکھا۔ بہرحال یہ اب کی بات ہے، ماضی میں کوئی تنقید کرتا تو اسے اپنے لیے تحریک کا ذریعہ بناتا اور کارکردگی دکھاتا۔

بشکریہ ایکپسریس نیوز

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں