واشنگٹن: ملیریا کو غریبوں کا مرض کہا جاتا ہے کیونکہ اس کا مرکز اب بھی افریقہ ہے۔ تاہم سائنسدانوں نے خبردار کیا ہے جیسے جیسے عالمی حدت بڑھ رہی ہے، ملیریا کی وجہ بننے والے مچھروں کا دائرہ کار بڑھ رہا ہے جو لگ بھگ 5 کلومیٹر سالانہ ہے۔
اس ضمن میں سب سے اہم بات یہ سامنے آئی ہے کہ کلائمٹ چینج کی وجہ سے اب افریقہ کی جان لیوا بیماری دیگر خطوں تک پھیل سکتی ہے جو گزشتہ صدی کے ڈیٹا سے ظاہر ہے۔
جارج ٹاؤن یونیورسٹی کے ماہرِ حیاتیات، کولن کارلسن اور ان کے ساتھیوں نے گزشتہ 120 برس کا افریقی ڈیٹا لیا ہے جس میں 1898 سے 2016 تک افریقہ میں پائے جانے والے اینوفیلس مچھروں کی 22 انواع کے پھیلاؤ یا دیگر علاقوں تک منتقلی کو نوٹ کیا ہے۔ اس عرصے میں کرہِ ارض کا درجہ حرارت اوسطاً 1.2 درجے سینٹی گیرڈ بڑھا ہے جس کے بعد مچھروں نے دیگرعلاقوں تک یلغار کی ہے۔
اس کا لبِ لباب یہ ہےکہ ملیریا پھیلانے والے مچھر اینوفیلس ہر جنوب کی جانب ہر سال تین میل یا 5 کلومیٹر تک آگے بڑھے ہیں۔ لیکن یہاں دوسری اہم بات یہ ہےکہ مچھر اب سطح سمندر سے بلندی کی طرف بھی جارہے اور یوں ہر سال ساڑھےچھ میٹر اوپر پہنچ رہے ہیں۔
سائنسدانوں کا سروے بتاتا ہے کہ اینوفیلس مچھر بیسویں صدی کے مقابلے میں قطبِ جنوبی کے مزید 500 کلومیٹر قریب ہوچکے اور اوپر کی جانب 700 میٹر بلندی تک پہنچ چکے ہیں۔ واضح رہےکہ اس کی پیشگوئی پہلے بھی کئی مرتبہ کی جاچکی ہےاور اب ڈیٹا کے جائزے سے اس کی تصدیق ہوچکی ہے۔
سائنسدانوں کے مطابق مچھر اڑنے میں بہت تیز ہوتے ہیں اور ہوا کے رخ پر ایک ہی رات میں کئی سو کلومیٹر دور تک جاپہنچتے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ آب و ہوا میں تبدیلی سے نہ صرف ان کا پھیلاؤ بڑھ رہا ہے بلکہ ان کے مرض پھیلانے کا دورانیہ بھی بڑھ رہا ہے۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو ملیریا افریقہ کے علاوہ دیگر ایسے ممالک تک پھیل سکتا ہے جہاں یہ مرض بہت ہی کم ہے۔بشکریہ ایکسپریس