362

روندو کی ترقی چراغ تلےاندھیرا

روندو جسے گیٹ وے آف بلتستان بھی کہا جاتا ہے جسکی اہمیت گلگت بلتستان کے دیگر علاقوں سے کم نہیں بلتستان کا گیٹ وے ہونے کے باوجود اس علاقے کی پسماندگی اپنی مثال آپ ہے علاقے کی آباد تقریبا 75000 سے تجاویز کرگٸی ہے مگر اسکے باوجود علاقے کے مساٸل بھی آبادی کے تناسب سے دوگنا بڑھ رہے ہیں اس جدید دور میں پورے روندو کی آبادی کے علاج کے لیے صرف اور صرف ایک سرکاری ہسپتال ڈامبوداس میں موجود ہے جس میں نہ تو دواٸی آسانی سے میسر ہے اور نہ ہی ڈاکٹر مہذب معاشروں اور قوموں کا ہمشہ سے یہ شعار رہاہے کہ وہ اپنے تعلیمی اور صحت کے شعبے میں کسی قسم کی کوٸی سُستی کا مظاہرہ نہیں کرتے مگر اہلیان روندو کا یہ عالم ہے کہ یہاں پر موجود اکلوتا ہسپتال میں کسی بھی قسم کی کوٸی سہولت موجود نہیں بالخصوص جب خواتین کی ڈیلیوری کا مسلہ پیش آتا ہے تو تب ان کی دیکھ بھال اور علاج کے لیے علاقے میں کوٸی لیڈی ڈاکٹر موجودہے ہی نہیں جسکی وجہ سے کٸی خواتین کی گودیں اجڑ جاتی ہے اور بعض اوقات یہ مسلہ خواتین کی موت تک آجاتاہے۔

آپ سب کو یاد ہوگا جب 2018 میں لشتھنگ کی ایک ٹیوٹا حادثے کا شکار ہوٸی جس میں زخمی ہونے والے سیریس مریضوں کی علاج کے لیے کسی قسم کا کوٸی انتظام موجود نہیں تھا اور ان مریضوں کو علاج مہیا کرنے کے بجاٸے سکردو روانہ کیا گیا یہ بے بسی ہماری موت سےکم نہیں یعنی ہم اس دور میں بھی ایک ایسے جنگل میں رہتے ہیں

جہاں غریب اور لاچار عوام کی حالت دن بہ دن ابتر ہوتی جارہی ہے یہ تو صرف صحت کے مساٸل ہیں اگر ہم تعلیم کی بات کریں تو روندو بھر میں کٸی سرکاری و غیر سرکاری سکول اپنی حثیت کے مطابق بچوں کو تعلیم دینے کی کوشش کرتے ہیں مگر اس میں ان سب stakeholder کی مہربانی سے فیل ہیں۔گورنمنٹ سکولوں کا تو یہ عالم ہے کہ یہاں کے بچے کھلے آسمان تلے تعلیم حاصل کررہے ہیں جس میں اساتذہ کاشدید بحران ہے کسی مڈل سکول میں اگر بچے 200 ہیں وہاں کے بچوں صرف اور صرف دو اساتذہ کے رحم کرم پر ہی چھوڑ دیا گیا ہے

جب کہ پراٸمری سکولوں میں صرف اور صرف ایک استاد ہی اپنی ڈیوٹی دے رہا ہوگا جب کہ ہاٸی سکول اور انٹر کالجز کی بات تو کریں ہی مت جہاں کم از کم 8 سے 9 کلاسسز ہونگے لیکن اساتذہ بھی اتنی ہی تعدا میں یا پھراس سے بھی کم تعدا میں ہونگے انٹر کالج تلو کی ہی مثال لیں جہاں پر صرف اور صرف 8 اساتذہ اپنی ذمہ داریاں نبھا رہیں اس صورت حال میں ہم اپنے مستقبل کے معماروں کو کیسے پرواز کرنا سکھاٸیں گے

بقول علامہ اقبال
سبق شاہیں بچوں کو دے رہیں خاک بازی کا ۔

یعنی جن بچوں کو اقبال نے شاہین سے تشبی دی ہم ان کو خاک بازی سکھا رہیں یہ ہے ہمارا المیہ ہم آپس کے اختلافات میں پھنسے ہوٸے ہیں اپنے مفاد کے حصول کے لیے قومی مفاد کو کب کے دفن کرچکے ہیں ہم تو اس معاملے پر الجھے ہوٸے ہیں کہ ہر آنے والے کمشنر کو زیادہ عرصہ علاقے میں رہنے دینا ہی نہیں نہ تو ہم کسی کو کام کرنے کی اجازت دیتے ہیں اور نہ ہی ہم خود کرسکتے ہیں روندو جو سب ڈویژن بنے ہوٸے عرصہ بیت گیا مگر علاقے میں اب بھی اسسٹنٹ کمشنر آفس موجود نہیں۔

اب بات کرتے ہیں ہیں سڑکوں کی جی ہاں روندو بھر کی سڑکیں موت کا کنواں بنی ہوٸی ہے جہاں سے گاڑیوں کا گزر ہونا کوٸی معولی بات نہیں اس کی مثال آپ طورمک روڈ کا لیں جہاں پر آٸے روز حادثات رونماہوتے ہیں جس میں قمیتی جہانوں کا ضیا اب معمول بن چکا ہے مگر ہمارے نماٸندے حادثے کےبعد لوگوں کو بے قوف بنانے کےلیے علاقے کا دور تو کرتے ہیں مگر عملاًکام کرنے سے شاید ان پر قیامت ٹوٹ پڑتی ہے میں نجف علی صاحب کوسلام پش کرتا ہوں کہ جنہوں نے بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوٸے 22جون کو گلگت سکردو روڈ پر احتجاج کیا اور اپنے حقوق کی جنگ لڑنے کا اعلان کیا اور حادثے کا شکاری ہونے والی گاڈی کی ایف آٸی آر درج کرانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوٸے یقینا آپ جیسے باہمت مرد کی ہر علاقہ ہر گھر اور ہر محلے کو ضروت ہے جو بے باک اور نڈر ہو اور قوم سے مخلص ہو۔اب بات کرتے ہیں دوسرا خوفناک روڈ جو 2015 میں سرکاری کاغذات میں مکمل ظاہر کیا گیا

لیکن جو اب بھی اپنے اندر ایک خوفناک وحشت لیے بیٹھا ہے جی ہاں یہ سڑک پی پی پی کے دور میں تعمیر کراٸی گٸی یا یوں کہ دے کہ دو ٹاٸر کے لیے راستہ نکلا گیا یہ وہ علاقہ ہے جو پورے روندو میں سب سے پسماندہ ہے جہاں نہ بچوں کو تعلیمی سہولیات میسر ہیں اور نہ ہی صحت کے اور نہ ہی کوٸی اچھی سی سڑک ہیں اس علاقے کا نام ملیار گلشن آباد ہے عوامی نماٸندوں کو ہم نے اکثر شادی بیاہ کے پروگرامات میں دیکھا ہے پھر الیکشن کے وقت ووٹ کے لیے بیگ مانگتے ہوٸے اسکے علاوہ صاحبان اقتدار نے قسم اٹھا رکھی ہے کہ ہم نے علاقے کی تعمیر وترقی کے لیے کوٸی کام نہیں کرنا کیوں کہ تمہارا کونسا لیڈر ہے جسکے خوف سے بھی چند ایک کام کرتے ۔
گرلز مڈل سکول کی بچیاں پچھلے 8سالوں سے کھلے آسمان تلے تعلیم حاصل کرہی ہے مگر حکام بالا کو کوٸی پروہ نہیں یو کہہ دیجٸے کہ موجودہ نماٸندے سے جب ملیار کے جوانوں نے اساتذہ کی کمی کی شکایت کی تو مسلہ حل کرنے بجاٸے جوانوں کو پاگل کہہ ڈالا یہ تب کی بات ہے جب موصوف نے حلف لیے چند مہینے ہی گزرے تھے

وہ سیاسی نوسرباز کیوں روندو کی ترقی کے لیے کام کرینگے ?ان کا روندو میں رہتا ہی کون ہے? ان کو کیا فرق پڑتا ہے طورمک کی ایک نہیں دس گاڑیاں ایکسیڈینٹ ہوجاٸے لشی تھنگ کے کتنے ہی لوگ ٹیوٹا حادثے میں میں انتقال کر جاٸیں? ڈامبوداس ہسپتال میں لیڈی ڈاکٹر و دیگر عملہ نہ ہونے سے ان کی زندگی پر کوٸی اثر نہیں پڑتا کیوں کہ ان کی بہو بیٹی نے کونسا ڈامبوداس میں اپنی علاج کرانی ہے ان کے بچے تو سر درد کی دوا لینے کے لیے بھی سپشلسٹ سے رجوع کرتے ہیں ۔

کونسا ان کے بچے روندو کے سکولوں سے تعلیم حاصل کرتے ہیں اور نہ تو ان کے بچے طورمک روڈ سے کبھی گزرتے ہیں اور نہ ہی تلوبرق روڈ سے اور نہ ہی ملیار روڈ سے کیوں کسی اور کے لیے یہ لوگ سڑکیں تعمیر کراینگے ان کا ہمارا رشتہ ہے ہی کیا ان کا تعلق صرف اور صرف الیکشن کے دنوں ہوتا ہے اسکے علاوہ (تو زنگوٹی اور میں گنجی) والا فارمو استعمال ہوتا ہے دوسری جانب تم (طورمک اور بلامک )کے میں استک کا سو نہ تو ہمارا بارڈر ملتا ہے اور نہ ہی یونین۔

اب ان باری کھیلنے والے سیاست دانوں اور ان کے عزیز واقارب کی جاٸیدادیں ہی دیکھ لے اب یہ عوامی ٹھکیوں کے فنڈز سے ہاتھ مارکر کروڈوں کما چکے اب یہ ایک لابی کی شکل اختیارکرچکی ہیں یہ علاقے کی تعمیر کے لیے کام کم اپنے بینک اکاٶٸنٹ کی ترقی کے لےپرعزم ہیں ۔

اب بات کرتے ہیں روندو کو ڈسٹرکٹ کا درجہ ملنے پر ہر شعبے کے افراد نے اپنی حثیت کے مطابق تحریک چلاٸی اور جلسے کٸے اور ڈامبوداس روندو جلسہ تاریخی حثیت کا حامل ہے جس کی بدولت روندو کو بھی ڈسٹرکٹ کا درجہ دیا گیا جی ہاں اس کے کریڈیٹ کاسب سے پہلے حقدار روندو یوتھ فورم نجف علی طورمک اور دیگر روندو بھر کی سیاسی و سماجی تنظیمں چند ایک کے علاوہ جنہوں نے اس تحریک کو اپنے انجام تک پہنچایا۔اور ساتھ ہی ساتھ وزیر اعلی گلگت بلتستان اور اسکی پوری کیبنٹ کا کہ جن کی بدولت روندو کو ڈسٹرکٹ کا درجہ ملا ہم شکریہ ادا کرتے ہیں تمام stakeholders کا کہ جن لوگوں کی کوششوں کی بدولت علاقے کو یہ شناخت ملا ۔
اب ڈسٹرکٹ بنےکے بعد تمام اختیار متعلقہ ڈسٹرکٹ کو فراہم کرنا وقت کی ضرورت ہے جس کے لیے دوبارہ پوری قوم ایک ہوکر تحریک چلاٸیں تاکہ حقیقی معنوں میں اختیارات مل جاٸے اور علاقے کی تعمیروترقی مثبت راہ پر گامزن ہوجاٸے ۔

اور اب بس ان پرانے سیاست دانوں کو قوم کے مستقبل کے ساتھ کھیلنے کی مزید اجازت نہیں دینی چاہیٸے اب روندو سے کسی پڑھے لکھے بندے کو سیاسی میدان میں کھڑا کرنا ہوگا تاکہ علاقے سے ٹھکیداری کلچر کا خاتمہ ہوجاٸے اور علاقے میں حقیقی معنو ں میں تبدیلی آٸیں اس کے لیے روندو کے مختلف علاقوں سے نوجوان اور پڑھے لکھیں جوانوں نے سیاست میں دلچسپی کا اظہار کیا جس میں سب سے زیادہ نوجوان اور پڑھے لکھیں افراد پاکستان تحریک انصاف میں موجود ہیں جن کے زریعے تبدیل ممکن ہے کیوں کہ جوان قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں اس لیے اب جوانوں کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگااور علاقے کی تعمر وترقی میں حصہ ڈالنا ہوگا۔

روندو کا وہ نڈر نماٸندہ جس علاقے کی تعمیر وترقی میں جتنا کام کیا شاید آج تک یہ باری باری کھیلنے والے سیست دانوں کی بس میں نہیں روندو کو اس وقت بھی ایک ایسا ہی نڈر اور بے باک سیاست دان کی اشد ضرورت ہے جس کو آج بھی خطہ بلتستان میں بروق پا جمعہ خان کے نام سے یادکیا جاتا ہےاور اسکی روح کو دعاٸیں دی جاتی ہے اس وقت بھی پاکستان تحریک انصاف می کونسلر جمعہ خان کا پوتا اختر جمعہ نے اپنے دادا کے بعد کٸی سال گزار جانے کے بعد سیاسی میدان میں قدم رکھا ہے اس سلسلے میں مختلف لوگوں کی راٸے ہے کہ اختر جمعہ ایک پڑھے لکھا اور قابل شخص ہے جن کو سیاست میں حصہ لینا عین فطری ہے جو اپنے دادا مرحوم کے نقشے قدم پر گامزن ہوگا اور علاوے کی تعمیروترقی میں اپنا مثبت کرداد ادا کریگا۔

نوٹ: روزنامہ رہبر گلگت بلتستان اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ
[email protected]پر ای میل کردیجیے۔

تحریر : شاہ جہان ملک

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں