368

وزیر اعلی گلگت بلتستان کا شعبہ تعلیم پر اظہار خیال تحریر: شہزاد حسین الہامی

وزیر اعلی گلگت بلتستان کا شعبہ تعلیم پر اظہار خیال

تحریر: شہزاد حسین الہامی

گزشتہ دنوں گلگت بلتستان اسمبلی کے اجلاس میں وزیر اعلیگلگت بلتستان نے شعبہ تعلیم کے حوالے سے حکومت کی جانب سے کئے گئے اقدامات کے حوالے سے ایوان کو اعتماد میں لینے کے لئے خطاب کیا وزیر اعلی گلگت بلتستان کا کہنا تھا کہ گلگت بلتستان کی صوبائی حکومت چاہتی تھی کی گلگت بلتستان کے سرکاری سکولوں اور کالجز کے معیار کو جانچ سکے اس لئے صوبائی حکومت نے گلگت بلتستان کے سرکاری سکولوں اور کالجز کا الحاق فیڈل بورڑ کے ساتھ کیا فیڈل بورڑ کا شمار پورے ملک کے نامور اور بہترین بورڑ میں ہوتا ہے اور اب تک اس بورڑ کے حوالے سے کوئی شکایت سامنے نہیں آئی، وزیر اعلی کا کہنا تھا کہ گلگت بلتستان میں اس وقت تین بورڑ کام کر رہے ہیں آغا خان بورڈ، فیڈل بورڈ اور قراقرم بورڈ،قراقرم بورڈ میں صرف جی بی کے طلباء شامل ہوتے ہیں جب کہ فیڈل بورڈ میں تمام ملک کے طلباء حصہ لیتے ہیں، انہوں نے قراقرم بورڈ سے سرکاری سکولوں اور کالجز کا الحاق ختم کرنے کے فیصلے کے وجوہات بھی بیان کئے اور کہا کہ قراقرم بورڈ دینا کا پہلا بورڈ تھا جو میڑک اور انٹر کے طلباء کا امتحان لیتا تھا، وزیر اعلی کا مزید کہنا تھا کہ گلگت بلتستان کی صوبائی حکومت نے چار سال کے عرصے میں اقدمات کئے جن میں سرکاری سکولوں کی تعمیر وترقی کے ساتھ ساتھ سرکاری سکولوں کے طلباء کے لئے فری کتابوں کی فراہمی جیسی منصوبوں پر کام کیا چار سال کے عرصے میں تعلیم کے شعبے میں کام کرنے کے بعد اب ان تعلیمی اداروں کا کاردگی جانچنے کی ضرورت محوس کرتے ہوئے فیڈل بورڈ کا ساتھ الحاق کیا جس کا رزلٹ حکومت کے سامنے آیا، وزیر اعلی نے کہا کہ جن سرکاری سکولوں کی کاردگی بہتر نہیں انکے خلاف کاروائی بھی ہو گئی ساتھ ہی انہوں نے مزید کہ حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ آئیندہ تعلیمی اداروں کے پرنسپلز کی تعیناتی سلیکشن بورڈ کے زریعے ہو گئی اور میرٹ کے مطابق فیصلے ہونگے، وزیر اعلی گلگت بلتستان نے مزید کہا کہ حکومت نے چار سال کے عرصے میں سرکاری سکولوں پر توجہ دی مگر کالجز پر ذیادہ توجہ نہیں دے سکے ساتھ ہی وزیر اعلی نے قراقرم یونیورسٹی سمیت بلتستان یونیورسٹی میں پیدا ہونے مالی مشکلات کا بھی ذکر کیا اور وفاقی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ ہم سمجھتے تھے کہ وفاقی حکومت اقتدار میں آنے کے بعد تعلیمی کے شعبہ کو مزید فعال کریگی مگر تحریک انصاف کی حکومت نے اقتدار میں آنے کے بعد HECکے بجٹ میں کٹوتی کی اور ساتھ ہی HECحکام کو خط بھی لکھا کہ وہ مخیر حضرارت کے ساتھ رابط کریں اور فنڈ کا انتظام کریں اور طلباء کی فیسوں میں بھی اضافہ کریں جس کے بعد قراقرم یونیورسٹی کی انتظامیہ نے خط لکھا اور موقف اختیار کیا کہ HECکی فنڈ کٹوتی اور گلگت بلتستان کی سرکاری سکولوں اور کالجز کا قراقرم بورڈ سے الحاق ختم کرنے کے بعد قراقرم یونیورسٹی مالی بحران کا شکار ہے اور یونیورسٹی انتظامیہ نے فیسوں میں اضافہ کیا تو یونیورسٹی کے طلباء وطالبات نے احتجاج شروع کیا ہے اس پر وزیر اعلی نے کہا کہ ہم نے یونیورسٹی انتظامیہ سے کہا کہ صوبائی حکومت کے فیصلے کے بعد یونیورسٹی کو کتنا نقصان ہو ا اس کا ازالہ صوبائی حکومت کریگی مگر قراقرم بورڈ کے ساتھ الحاق نہیں کرینگے، وزیر اعلی گلگت بلتستان نے اسمبلی اجلاس میں مزید کہا کہ اس کے بعد بلتستان یوینورسٹی سے بھی حکام نے رابط کیا ہے وہاں پر بھی یہی صورت حال ہے وزیر اعلی نے اسمبلی اجلاس میں اس بات کا بھی انکشاف کیا کہ صورت حال یہی رہی تو بہت جلد قراقرم یونیورسٹی کے دیگر اضلاع میں موجود کمیپنس بند ہونگے،وزیر اعلی گلگت بلتستان اسمبلی میں کی گئی تقریر سن کر انتہائی دکھ ہوا،محترم قارئین!

ریاست پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شہریوں کے لئے مفت تعلیم کا انتظام کریں اور اس طرح وفاقی اور صوبائی حکومتیں ایک دوسرے پر ذمہ داریاں ڈال کر اپنی ذمہ داری سے بھاگ نہیں سکتی، 18روی ترمیم کے بعد شعبہ تعلیم کا اختیار تمام صوبوں کو منتقل ہو چکا ہے کالجز اور سکولوں کی ذمہ داری صوبائی حکومت پر عائد ہوتی ہے جب کہ یونیورسٹیاں چونکہ HECکے زیر نگرانی ہوتی ہے اس لئے یہ وفاقی حکومت کی ذمہ داری میں شامل ہوتا ہے کہ وہ یونیورسٹیوں کے نظام کو بہتر طریقے سے چلائیں، وزیر اعلی نے اپنے خطاب میں اسمبلی میں موجود تحریک انصاف کے ممبر کو بار بار مخاطب کرتے ہوئے وفاقی حکومت پر گولہ باری کی مگر اس پر راجہ جہانزیب نے کیا موقف دیا اس کا علم نہیں ہو سکا،مگر سوشل میڈیا میں دیکھنے کو ملا کہ وفاقی وزیر اور جہانگیر ترین کے ساتھ تحریک انصاف گلگت بلتستان کی صوبائی قیادت کے ساتھ گورنز ہاوس میں ہونے والی ملاقات میں اس مسئلہ کو اٹھایا گیا ہے اور وفاقی وزیر اور جہانگیر ترین نے اس مسئلے کو حل کروانے کی یقین دہانی کروائی ہے یہ آنے والا وقت ہی بتایا گا کہ اس دورے کے بعد وفاق وزیر اس مسئلہ کو کسی طرح حل کرتے ہیں، اب کچھ بات کرتے ہیں صوبائی حکومت کی صورت حال پر واقعی وزیر اعلی نے کسی حد تک اسمبلی میں اپنے خطاب میں شعبہ تعلیم کے بارے میں اظہار خیال کیا مگر بہت سی وجوہات شیدید وزیر اعلی کے علم میں ہونے کے باوجود اسمبلی فورم پر بیان نہیں کر سکے انکو بھی بیان کرنے کی ضرورت تھی، وزیر اعلی گلگت بلتستان نے سرکاری سکولوں کی صورت حال تو بیان کیا مگر یہ بیان نہیں کر سکے کہ سرکاری سکولوں کی صورت دن بدن ابتر ہوتی جا رہی ہے اسکی وجوہات بہت سی ہے ان پر غور کرنے کی ضرورت ہے، گلگت بلتستان کے سرکاری سکولوں کے اساتذہ گزشتہ کئی سالوں سے سرکاری محکوں میں اپنی خدمات سرانجام دیئے رہے ہیں جن کو درس وتدریس کے لئے تعینات کیا گیا ہے وہ سرکاری محکوں میں کیوں کام کر رہے ہیں؟ وزیر اعلی گلگت بلتستان کو چاہیں کہ وہ سب سے پہلے سرکاری دفتروں میں کام کرنے والے اساتذہ کو فوری طور پر سکولوں میں واپس جانے کے احکامات صادر کریں ساتھ ہی کچھ سرکاری اساتذہ این جی ایوزکے ساتھ کام کر رہے ہیں انکو بھی واپس درس وتدایس پر معمار کریں، ایک اور اہم نکات جس پر کئی عرصے سے اخبارت میں مختلف سیاسی جماعتوں کے بیانات بھی سامنے آ رہے ہیں کہ گلگت شہر میں دیگر اضلاع کے اساتذہ کئی سالوں سے براجماں ہیں وزیر اعلی گلگت بلتستان اس پر بھی نظر کرم کریں اور اساتذہ کو فوری طور پر اپنے اپنے اضلاع جہاں پر انکی تعینات ہوئی تھی انکو وہاں پر واپس جانے کے احکامات صادر کریں، گلگت شہر میں دیگر اضلاع کے اساتذہ کا ڈیوٹی دینا سمجھ سے بالاتر ہے، اساتذہ نے اپنے اپنے اضلاع کو چھوڑا کر سیاسی و مذہبی اثروسوخ استعمال کر کے گلگت شہر میں اپنا تبادلہ کرایا ہے جس سے انکے متعلقہ اضلاع میں اساتذہ کی کمی کے روزانہ بیانات اخبارت میں آتے ہیں، وزیر اعلی گلگت بلتستان کو چاہیں کہ وہ محکمہ تعلیم میں موجود سرکاری آفسیروں کی کاردگی بھی ساتھ ساتھ چیک کریں محکمہ تعلیم میں ایسے سرکاری آفیسروں بڑے بڑے عہدوں پر موجود ہے جن کو شعبہ تعلیم کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں جسکی واضح مثال گزشتہ دنوں محکمہ تعلیم کی جانب سے دیا گیا اشتہار تھا جس میں شعبہ تعلیم کی ڈگریوں کا نام تک موجود نہیں تھا،محکمہ تعلیم کے ذمہ دارن کو یہ بھی پتہ نہیں کہ ملک کی یورسیٹوں میں گزشتہ آٹھ سالوں میں کیا کیا تبدلیاں رونما ہوئی ہے کون کون سی ڈگریاں اس وقت ملک کی یوینورسٹوں میں جاری ہے، محکمہ تعلیم کے زیر انتظام گلگت اور سکردو میں اساتذہ کی تربیتی اور شعبہ تعلیم کی پروفشنل تعلیم دی جاتی ہے مگر کبھی محکمہ تعلیم گلگت بلتستان کے ذمہ داروں نے ان کالجز میں جا کر نہیں دیکھا کہ یہاں سے کون کون سی ڈگریوں کی تعلیم دی جاتی ہے، محکمہ تعلیم کے ذمہ داروں کو چاہیں کہ وہ قراقرم یونیورسٹی کے شعبہ تعلیم کا دورہ کریں اور وہاں پر موجود شعبہ تعلیم کے ماہرین سے گلگت بلتستان کے تعلیمی نظام اور محکمے کو بہتر بنانے کے لئے تجویز لیں اور ان پر عمل کریں،قراقرم یونیورسٹی شعبہ تعلیم شعبہ تعلیم کے ماہرین موجود ہیں۔وزیر اعلی گلگت بلتستان اگر واقعی مخلص ہے کہ وہ گلگت بلتستان کی تعلیمی نظام میں بہتری اور جدید اصلاحات نافذ کریں تو وزیر اعلی گلگت بلتستان فوری طور پر گلگت بلتستان میں موجود ماہرین تعلیم پر مشتمل ایک مشاورتی کونسل بنائے جس میں قراقرم یونیورسٹی کے ماہرین تعلیم سمیت تعلیم کے شعبہ میں کام کرنے والے افراد کو شامل کریں اور ان سے تجویز لیں اس کونسل میں PDCNکے مولا دات قراقرم یونیورسٹی سے ڈاکٹر آصف جیسے نامور ماہر تعلیم جیسی شخصیات کو شامل کریں تاکہ ان کی تجویز کے بعد گلگت بلتستان کے شعبہ تعلیم میں اصلاحات نافذ کریں

نوٹ: روزنامہ رہبر گلگت بلتستان اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ
[email protected]پر ای میل کردیجیے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں