398

ایک تاریخ، دو فیصلے،،،، تحریر: فرحان تنیو

حضرت علی کا ایک مشہور قول ہے کہ کفر کا نظام تو کامیابی کے ساتھ چل سکتا ہے پر ناانصافی پر مبنی نظام کا چلنا ناممکن ہے۔ اس قول عظیم کے تناظر میں اگر ہم اپنے ملک پاکستان کے نظام عدل پر نظر دوڑائیں تو حیرت کے جزیروں میں غرق ہوجاتا ہے انسان۔ اور ہو بھی کیوں نہیں کہ ہمارے ہاں تو ملک کے وجود میں آنے کے بعد پہلے دن سے آج تک شاید ہی کوئی ایسا عدالتی فیصلہ ہو جسے ہم عدل و انصاف کے عین مطابق قرار دے کر مثالی کہہ سکیں۔

نظام عدل کے ساتھ ناانصافی کا یہ سلسلہ کہاں سے شروع اور کس نے اس کی بنیاد ڈالی، اس بات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے یہ وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ اس ملک میں حصول انصاف اب مشکل سے کہیں آگے کا سفر طے کرتے ہوئے ناممکنات کی حد تک جا پہنچا ہے اور اس کی تازہ مثال سانحہ ساہیوال پر لاہور کی انسداد دہشتگردی کی خصوصی عدالت کا وہ فیصلہ ہے جس میں ایک معصوم، بیگناہ اور نہتے خاندان کے لوگوں کو گولیوں سے چھلنی کرنے والے تمام ملزمان کو باعزت بری کرنے کا فیصلہ سنادیا گیا۔

بہت حیرت ہوئی اس فیصلے پر جس میں شک کا فائدہ دے کر ان تمام 6 ملزمان کو باعزت بری کردیا گیا جن کی بندوقوں نے رواں برس کے پہلے مہینے میں چار افراد سے زندہ رہنے کا حق چھین لیا تھا۔ جن میں میاں بیوی، تیرہ سالہ بیٹی اور ڈرائیور شامل تھے۔ اس مقدمے میں 49 گواہان کے بیانات قلمبند کیے گئے تھے، جن میں مقتول محمد خلیل اور مقتولہ نبیلہ کے دو معصوم بچے بھی شامل ہیں، جو جائے وقوعہ پر گولیوں کا نشانہ بننے والی گاڑی میں موجود تھے اور زخمی ہوئے تھے۔ چوںکہ ملزمان کا تعلق سی ٹی ڈی پنجاب سے تھا تو انہیں تمام شواہدات و بیانات کے باوجود شک کا فائدہ دے کر بری کیا گیا۔

چلیں جی یہ تھا ہمارے پیارے ملک کی ایک خصوصی انسداد دہشتگردی عدالت کا فیصلہ، جس سے کمزور نظام عدل کی قلعی حسب معمول ایک بار پھر کھل گئی ہے۔ اسی دن، اسی تاریخ کو، برادر اسلامی ملک بنگلہ دیش (جو کہ اگست 1947 سے دسمبر 1971 تک ہمارا ہی حصہ تھا) کی عدالت کا ایک فیصلہ بھی میڈیا کی زینت بنا، جس میں انیس سالہ طالبہ کو ہراساں کرنے اور زندہ جلانے جیسے اقدام میں ملوث تمام 16 افراد کو پھانسی کی سزا سنادی گئی ہے۔

وہ کہتے ہیں ناں کہ فرق صاف ظاہر ہے۔ تو اس معاملے میں بھی فرق صاف نظر آرہا ہے کہ بنگلہ دیش جیسا ملک، جسے ہم کمزور سمجھ کر کمتر گردانتے آئے تھے، آج وہی بنگلہ دیش نہ صرف معیشت و کاروبار بلکہ نظام عدل میں بھی ہم سے بہت آگے نکل گیا ہے۔

19 سالہ طالبہ نصرت جہاں، جو چٹاگانگ صوبے کے ضلع فینی کے ایک ڈگری مدرسہ میں زیر تعلیم تھی، جنہیں پرنسپل کی جانب سے ہراسانی کا سامنا تھا۔ بہادر طالبہ نے خاموش رہنے کے بجائے حصول انصاف کےلیے کیس دائر کروایا۔ مقامی پولیس نے پرنسپل کو گرفتار بھی کیا، جس کے بعد پرنسپل کے ساتھیوں نے متاثرہ طالبہ کو مصالحت کے بہانے بلاکر مدرسہ کی چھت پر تیل چھڑک کر زندہ جلادیا تھا۔ اس واقعے کے بعد طالبہ نصرت جہاں جھلس کر شدید زخمی ہوگئی تھی اور چند دن بعد اسپتال میں اس کا انتقال ہوگیا۔ اپنی موت سے قبل طالبہ نے تمام ملزمان نے نام وڈیو بیان میں بتادیے تھے۔ لہٰذا پولیس نے نصرت جہاں کے بیان کی روشنی میں تمام ملزمان کو گرفتار کیا۔ چارج شیٹ عدالت میں پیش کی اور صرف باسٹھ دن کی قلیل مدت میں عدالت نے تمام سولہ ملزمان کو پھانسی کا حکم دیا۔

میرے لیے تو حیرت کا مقام ہے، آخر ہمارے ملک کی عدالتوں سے اس طرح کے فیصلے آنے کا سلسلہ کب ختم ہوگا؟ کیا عدلیہ، حکومت اور ریاست اس سوال کا کوئی تسلی بخش جواب دینے کی زحمت کریں گے، یا یہ مملکت بس یوں ہی چلتی رہے گی؟

خدارا! اب ختم کرو یہ سب۔ کب تک ایسے فیصلے آتے رہیں گے؟ کب تک یوں خلق خدا کو حصول انصاف کے اہم ترین حق سے محروم رکھا جائے گا؟ موجودہ چیف جسٹس آف پاکستان جناب جسٹس آصف سعید کھوسہ ایک سے زائد مرتبہ اس امر کا اظہار کرچکے ہیں کہ جھوٹی گواہی کا رائج نظام ہمارے نظام عدل کےلیے زہر قاتل ہے اور تمام غلط فیصلوں کی وجہ بھی جھوٹے گواہان ہی ہیں۔ جب تک جھوٹی گواہی کا نظام سرے سے ختم نہیں کیا جائے گا تب تک فراہمی انصاف ایک خواب بنا رہے گا۔ چیف جسٹس آف پاکستان کی یہ بات بہت وزن رکھتی ہے۔ مگر باوجود ببانگ دہل یہ اعتراف کرنے کے ابھی تک اس ضمن میں کوئی ٹھوس اقدام نہیں اٹھائے گئے۔ جس کے نتیجے میں پوری قوم نے سانحہ ساہیوال کا حیرتناک فیصلہ بھی دیکھ لیا۔

وزیراعظم عمران خان نے بھی انسداد دہشتگردی کی خصوصی عدالت کے اس فیصلے کو نامناسب قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ فیصلے میں انصاف کے تقاضے پورے نہیں کیے گئے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ملک کے وزیراعظم کا ایک اہم کیس کے کمزور فیصلے پر صرف روایتی بیان جاری کرنا کافی نہیں، بلکہ انہیں متاثرہ خاندان سے رابطہ کرکے انصاف کے حصول کو ہر حال میں ممکن بنانے کی تسلی دینی چاہیے تھی۔ خیر اس ملک میں نہ ماضی میں ایسا کچھ ہوا ہے اور نہ ہی اب ایسی توقع کی جاسکتی ہے۔ مگر ایک سوال ضرور بنتا ہے کہ عمران خان جس ریاست مدینہ کی مثالیں دے دے کر نہیں تھکتے، اسی ریاست مدینہ کے بانی و آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مشہور حدیث ہے کہ چوری کرنے کی سزا جو عام آدمی کےلیے مقرر کی گئی ہے وہی سزا میری اپنی اولاد کےلیے بھی ہوگی۔

ایک ہی دن دو مختلف اسلامی ممالک کی عدالتوں سے آئے فیصلے مجھ سمیت بہت لوگوں کو سامان عبرت و حیرت ضرور مہیا کررہے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں