323

ستیاناس تحریر.. مظہر بر لاس

کئی حکومتوں میں وزیر رہنے والے نے ملکی معیشت پر روشنی ڈالنا چاہی اور پھر وہ وہی ہیرا پھیریاں بیان کرنے لگا جو معاشی ماہرین کرتے ہیں۔ ہندسوں اور لفظوں کے گورکھ دھندے کی مدد سے کہنے لگا ’’ہمیں یہ کرنا چاہئے، ہم اتنے سود پر کام کر رہے ہیں، اتنا سود دے کر ہمیں یہ نہیں بچے گا، وہ نہیں بچے گا، ہماری زراعت میں بھی وہ کچھ نہیں ہو رہا جو ہونا چاہئے تھا، ہمیں اس میں بھی ایسا کرنا چاہئے اگر ایسا نہیں تو ویسا کرنا چاہئے کیونکہ ہم نقصان میں جا رہے ہیں‘‘۔

وہ ایک لمحے کے لئے رکا تو کسی نے کوئی سوال داغ دیا۔ وہ ایک مرتبہ پھر شروع ہو گیا، پہلے جیسے بیان کردہ ہندسے پھر سے بیان کرنے لگا، وہی پرانی گردان پھر سے شروع ہو گئی۔ جب بات سنبھل نہیں پا رہی تھی تو اُس نے ترپ کا پتا استعمال کیا اور کہا ’’میں لندن اسکول آف اکنامکس کا پڑھا ہوا ہوں‘‘۔ اس پر پہلے تو مجھے لندن میں مقیم دانشور نسیم باجوہ یاد آئے جو اکثر کہا کرتے ہیں کہ ’’جب قرآن میں سود منع کر دیا گیا ہے تو پھر سود سے فلاح کیسی، سود سے فائدہ کیسے ہو سکتا ہے، سود سرا سر گھاٹے کا سودا ہے‘‘۔

پنجابی بولنے والے باجوہ صاحب زبردست آدمی ہیں مگر جب پاکستان آئیں تو رشتے داریوں کے چکر میں انہیں کبھی سیالکوٹ تو کبھی جوہر آباد اور سرگودھا جانا پڑتا ہے۔ دوستوں کے چکر میں اسلام آباد اور لاہور کی یاترا بھی کرنا پڑتی ہے۔

پہلا خیال تو نسیم باجوہ کے حوالے سے آیا تو دوسرا خیال یہ آیا کہ انہی لوگوں نے تو پاکستان کا ستیاناس کیا ہے، یہی لوگ جو بتاتے ہیں کہ میں لندن اسکول آف اکنامکس کا پڑھا ہوں، کوئی کہتا ہے میں آکسفورڈ کا پڑھا ہوں، کوئی ہارورڈ تو کوئی کیمبرج کا رعب جماتا ہے۔

انہی لوگوں نے پاکستان کو بربادیوں کا راستہ دکھایا، یہی لوگ مسائل حل کرنے کے نام پر مسائل میں اضافہ کرتے رہے۔ گزشتہ چالیس پچاس سالہ حکمرانی کا قصہ تو سب کے سامنے ہے، ان چالیس پچاس برسوں میں ان کالے انگریزوں نے ملک کو مقروض بنایا، ملکی مسائل میں اضافہ کیا، انہوں نے پاکستان کی سماجی زندگی برباد کی، ان کے کرتوتوں نے ہمارے معاشرے سے حسن چھینا، شاعری اور موسیقی چھینی، برداشت چھینی، انہوں نے زندگی کو اتنا تنگ کیا کہ زندگی ہچکیاں لینے پر مجبور ہے.

یہ لوگ پاکستان کو بھنور میں لے آئے، ان کے پاس گرداب سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں، یہ ہمیں مزید گہرے پانیوں کی طرف لے جاتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے کیونکہ یہ لوگ چند ابتدائی کلاسیں بڑے نجی اسکولوں میں پڑھنے کے بعد برطانیہ اور امریکہ میں پڑھتے ہیں، ان کی جوانی مغرب میں گزرتی ہے اور مغرب کے مسائل ہمارے معاشرے سے مختلف ہیں اسی لئے جب یہ لوگ واپس آ کر حکمرانی کرتے ہیں تو بجائے مسائل حل کرنے کے مسائل بڑھا دیتے ہیں.

یہ لوگ اپنے شاہانہ طرزِ زندگی کو برقرار رکھنے کے لئے ملکی وسائل کی پروا نہیں کرتے بلکہ ملک کے نام پر قرضے حاصل کرتے ہیں۔ کبھی ان کی قربت میں بیٹھ کر دیکھیے آپ کو اندازہ ہو گا کہ ان کی ساری توجہ سوٹ، نکٹائیوں، جوتوں، گھڑیوں اور گاڑیوں پر ہوتی ہے، چند ایک تو جہازوں کی بات کرتے ہیں، یہ کلاس پاکستان کی ایک فیصد سے بھی کم ہے اور بدقسمتی سے یہی حکمران کلاس ہے اسی لئے تو پاکستان میں جمہوریت نہیں، پاکستان میں ہمیشہ جمہوریت کے نام پر اقلیت نے اکثریت پر حکومت کی ہے۔

پاکستان کے 99فیصد عوام طویل عرصے سے محکوم ہیں، شاید اسی لئے پاکستان میں زیادہ ترقی آمرانہ ادوار میں ہوئی کیونکہ جمہوری دور میں تو وہ کلاس حکمران رہی جنہیں صرف اپنی فکر رہتی ہے، اس کلاس کے لوگ بھی عجیب ہیں، تقریریں اردو میں کرتے ہیں، فیصلے انگریزی میں لکھتے ہیں، ان میں سے بہت سوں کو تو اردو میں تقریر بھی کرنا نہیں آتی، بس وہ ٹیڑھی اردو سے کام چلاتے ہیں۔

پاکستان میں سب سے بڑی بیماری بھی عجیب ہے، لوگ اپنے آپ کو بہتر ثابت کرنے کے لئے انگریزی کا سہارا لیتے ہیں حالانکہ برطانیہ کے پاگل خانوں میں سب انگریزی بولتے ہیں، وہاں جھاڑو دینے والا بھی انگریزی بولتا ہے، انگریزی محض ایک زبان ہے، قابلیت کی علامت نہیں مگر ہمارے لوگ سادے ہیں۔ زبان میں ذہانت تلاش کرتے ہیں۔

خواتین و حضرات! پاکستان پر حکمرانی کرنے والے روپے میں نہیں ڈالر میں سوچتے ہیں، شاید ان کو روپے سے زیادہ ڈالر سے غرض ہے۔ دن رات آئین کی باتیں کرنے والوں کی حالت یہ ہے کہ 1973میں اقرار کیا گیا تھا کہ آئندہ پندرہ برسوں میں اردو کو نافذ کر دیا جائے گا مگر آج پچاس برس ہونے کو ہیں، ابھی تک سرکاری خطوط کی زبان نہیں بدلی، مقابلے کے امتحان کی زبان نہیں بدلی۔

آئین کے ساتھ اس سے بڑا مذاق کیا ہو سکتا ہے، اس سے بڑی بددیانتی کیا ہو سکتی ہے۔ اس ملک کے بابو بھی اسی میں خوش ہیں۔ اس ملک کے عدالتی نظام میں بھی ابھی تک غلامانہ علامتیں سر چڑھ کر بولتی ہیں۔ کبھی عدالتوں میں بحث کے مناظر دیکھیں، ایک دوسرے کو مخاطب کرنے کے انداز دیکھیں تو آپ پر سب واضح ہو جائے گا۔

سپریم کورٹ آف پاکستان نے فیصلہ دیا تھا کہ دفتری، سرکاری زبان اردو ہو گی مگر خود ابھی تک سپریم کورٹ سے فیصلے بھی انگریزی میں آ رہے ہیں۔ پاکستان میں حکمرانوں کی کلاس عام آدمی کا راستہ روکتی ہے، اسی کلاس نے پاکستان میں چیزوں کا ستیاناس کیا ہے، اس کلاس کی کارکردگی صفر ہے.

انہیں لوگوں کے مسائل کا پتا ہی نہیں، بھارت میں لالو پرشاد یادیو اور کیجریوال کی مثال دی جا سکتی ہے، ہمارے ہاں یہ مثال بھی نہیں مگر ہم پھر بھی محسن نقوی کے اشعار پیش کرتے ہیں کہ

دل سے لٹ کر بھی سخاوت کی تمنا نہ گئی

کوئی اجڑا ہوا آئے تو دعا لے جائے

جس کا دامن بھی محبت سے ہو خالی محسن

ہم غریبوں سے زرِ عہدِ وفا لے جائے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں