389

قومی تعمیر و ترقی کیسے مکمن ہے؟؟‎ تحریر یاسر دانیال صابری

آج کی نوجوان نسل کل کی قوم ہے اور ہماری نوجوان نسل ہمارے طلباء ہیں۔ طالب علمی کا مرحلہ زندگی کا اہم ترین مرحلہ ہے۔ یہ وہ زمانہ ہے جس میں انسان جو بوئے گا کل کو وہی کاٹے گا۔ تعلیم سے طالب علم بنتا ہے۔ تعلیم طالب علموں میں حقیقت کی تعمیر ہے۔ تعلیم طالب علموں کو حقائق اور اعداد و شمار کو سمجھنے اور مسائل کو موجودہ حالات میں کیسے حل کیا جا سکتا ہے جاننے میں مدد دیتی ہے۔ تعلیم کی اہمیت اس بات پر روشنی ڈالتی ہے کہ طلباء کی اولین ذمہ داری ایمانداری سے اچھی اور معیاری تعلیم حاصل کرنا ہے اور اس تعلیم سے سیکھ کر اپنی کردار سازی بھی کرنی ہے اور صحیح اور غلط میں تضاد کرنا بھی سیکھنا ہے تا کہ کل کو بہترین فیصلے لئے جا سکیں۔ تعلیم کا مقصد نہ صرف اُسے حاصل کرنا ہے بلکہ اس علم کو آگے بھی پہنچانا ہے اور علم کو آگے پہنچانے کا یہ سلسلہ انسان کو استاد کے مرتبے پر فائز کرتا ہے جو کسی بھی تعریف کا محتاج نہیں ہے۔ طلباء کے پاس علم کا ذخیرہ ضرور موجود ہوتا ہے

لیکن ایک اچھے استاد کے بغیر وہ کبھی بھی اس علم کو صحیح معنوں میں استعمال نہیں کر سکتے۔ جس طرح طلباء پر کچھ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں اسی طرح اساتذہ پر بھی کچھ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں کہ وہ اپنا علم ایمانداری سے طالب علموں کو دیں۔ علم بانٹنے سے بھی کم نہیں ہوتا بلکہ ہمیشہ بڑھتا ہے۔ استاد کو چاہئے کہ طلباء کی نہ صرف حوصلہ افزائی کریں بلکہ ان کی کردار سازی بھی کریں۔ اساتذہ کو چاہئے کہ وہ بچوں کے اندر علم حاصل کرنے کے شوق کو بڑھائیں۔

استاد اور طالب علم عمارت کے اُن دو ستونوں کی مانند ہیں جن کے بغیر عمارت کھڑی نہیں ہو سکتی۔ ماں باپ بچے کی پرورش کرتے ہیں لیکن ان کی تعلیمی، تربیتی، سماجی اور روحانی تربیت اساتذہ کرتے ہیں۔وجوان ملک و ملت کا مستقبل ہوتے ہیں۔

قوم کے معمار ہوتے ہیں۔کسی بھی قوم میں نوجوان قوم کا قیمتی سرمایہ تصور کئے جاتے ہیں۔نوجوان ملت کی تعمیر و ترقی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔قائداعظم محمد علی جناح نے تحریک پاکستان کے دوران نوجوان طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ’’میں آپ کی طرح جوان نہیں ہوں لیکن آپ کے جوش و جذبے نے مجھے بھی جواں کر رکھا ہے،

آپ کے ساتھ نے مجھے مضبوط بنا دیا ہے‘‘۔نوجوان دماغی و جسمانی لحاظ سے باقی عمر کے طبقوں سے زیادہ مضبوط ہوتے ہیں۔ہمت و جذبہ ان میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوتا ہے۔کٹھن حالات کا جواں مردی سے مقابلہ ان کی خوبی ہے۔کسی بھی قوم کی ترقی کی ضمانت نوجوانوں میں مضمر ہے۔

اس قوم کی راہ ترقی میں کوئی بھی رکاوٹ حائل نہیں ہو سکتی، جس کے نوجوان محنتی و ذمہ دار ہوں۔جن قوموں کے نوجوان ان صفات سے عاری یعنی سست وکاہل ہوں گے، وہ قومیں خودبخود بربادی کی طرف رواں ہو جائیں گی
.

دنیا بھر میں نوجوان قوم کی ریڑھ کی ہڈی تصور کئے جاتے ہیں۔اگر ریڑھ کی ہڈی ہی ناتواں ہو تو پورا جسم کمزور پڑھ جاتا ہے،جسم میں سکت نہیں رہتی۔ راہ راست ہی نوجوانوں کی مضبوطی کی ضمانت ہے۔دنیا میں وہی قومیں ترقی کر رہی ہیں، جن کے نوجوان درست سمت پر چل رہے ہیں۔پاکستان ایک ایسا ملک ہے ،

جس کی سب سے زیادہ آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔محتاط اندازوں کے مطابق ستر فیصد پاکستانی آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔پاکستانی نوجوانوں میں قابلیت اور ذہانت کی کمی نہیں،

اسی لئے بہت سے بین الاقوامی سطحوں پر ملک کا نام روشن کرتے ہیں۔ہمارے نوجوانوں میں وہ تمام خصوصیات موجود ہیں ،جو نوجوانوں کا خاصہ تصور کی جاتی ہیں۔ان میں ہمت ہے، جذبہ ہے ،یہ قابل ہیں، ذہین ہیں بہادر ہیں، اور محنتی بھی ہیں۔

مگر برسوں سے ہمارے آباؤ اجدا دہمیں شعور دینے میں ناکام رہے ہیں۔ہماری ریاست بھی اپنی ذمہ داریاں نبھانے میں ہمیشہ ناکام رہی ہے۔’آئین پاکستان کے آرٹیکل پچیس اے کے مطابق ریاست ہر شہری کو میٹرک تک مفت تعلیم دلوانے کی پابند ہے‘۔مگر یہاں تو نظام ہی الٹ ہے ،ریاست اپنی ذمہ داریاں نبھانے سے قاصر ہے۔

پرائیویٹ سیکٹر کی اجارہ داری نے من پسند کے نصاب اور من چاہی فیسوں سے تعلیمی نظام کی کمزوری کو عیاں کر دیا ہے۔غریب کے لئے تعلیم تو جیسے ناممکنات میں سے ہے۔اگر کوئی غریب اس کٹھن مرحلے میں معیاری تعلیم حاصل بھی کرلے تو اس کے سامنے اگلا کٹھن مرحلہ نوکری یعنی روزگار حاصل کرنا ہوتا ہے۔اب غریب اس کرپشن و سفارشی کلچر میں کیا کرے؟۔اپنی جائیداد بیچ کر نوکری حاصل کرے ؟یا پھر ڈگری کوآگ لگا کر مزدوری شروع کردے؟۔

آج ہمارے ہاں نوجوانوں کو سب سے بڑ ا جو درپیش مسئلہ ہے ،وہ بے روزگاری ہے۔تعلیم و ہنر کا فقدان تو برسوں سے چلا آ رہا ہے اس میں کمی بھی ہورہی ہے۔مگر بے روزگاری ہے کہ بڑھتی چلی جا رہی ہے۔لاکھوں روپے کے خرچ اور محنت سے ڈگری حاصل کرنے کے بعد بھی نوجوان ادھر ہی کھڑا رہتا ہے، جہاں وہ ڈگری حاصل کرنے سے پہلے تھا۔

نوجوانوں کی ضروریات اور بنیادی سہولتوں کی عدم فراہمی ہماری ریاستی ناکامیوں کے منہ بولتے ثبوت ہیں۔ہمارے ہاں ہمیشہ کی طرح سیاسی پارٹیاں اور سیاستدان نوجوانوں کو سہولتیں فراہم کرنے کی بجائے ،انہیں اپنے سیاسی مفادات کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔تعلیم کا چاہے حرج ہو جائے،ان کے جلسوں میں ضرور شامل ہوں۔حکومت اگرنوجوانوں کے لئے کوئی پالیسی بنا تی ہے ،تو اس کی شرائط ہی اتنی کٹھن ہو تی ہیں کے نوجوان اس سے مستفید نہیں ہو سکتے ۔ بلکہ سیاستدانوں کے لاڈلے اس سے پورا فائدہ اٹھاتے ہیں۔

سیاسی پارٹیوں کی چالاکیاں دیکھئے،اپنی سکیموں کے تحت اپنے پارٹی ورکرز کو پروان چڑھاتے ہیں۔ایسے کٹھن حالات میں مجبور نوجوان برائیوں کی طرف مائل ہو رہے ہیں ۔نام نہاد تنظیموں کے ہتھے چڑھ کر ملک کی جڑیں کھوکھلی کر رہے ہیں۔معاشرہ دن بدن اسی کشمکش میں برائی کی چادر اوڑھتا چلا جا رہا ہے۔بین الاقوامی رپورٹ کے مطابق ہر چھٹا پاکستانی بے روزگار ہے۔ہمارے بااثر لوگ اور حکمران ہمارے نوجوان اثاثے کو بھی دوسرے ملکی اثاثوں کی طرح بیچ رہے ہیں، برباد کررہے ہیں۔آج ہمارے ہیرے جیسے ڈاکٹرز او رانجینئرز باقی قیمتی چیزوں کی طرح ہی دوسرے ملکوں کی زینت بن رہے ہیں۔کیونکہ ہم اپنے رب کی دی ہوئی معدنیات اور نوجوانوں جیسی نعمتوں کو تراشنا نہیں جانتے،انہیں پالش نہیں کر سکتے

.
میری اپنے نوجوانوں سے گزارش ہے کہ ،وہ ان بااختیار حکمرانوں کی کارکردگی کو مدنظر رکھتے ہوئے آئندہ الیکشن میں ووٹ ڈالیں۔ہم مسلمان قوم ہیں ۔ہمیں اسلام کی تاریخ سے سیکھ کر خود ہی کچھ کرنا ہوگا۔ جب تک معاشرے کی تعمیر توحید یعنی اللہ کے ایک معبود ہونے کے کہ وہی تمام انسانوں کا اور پوری کائنات کا خالق، مالک، معبود اور رب ہے اور آخرت میں ہر شخص اپنے اعمال کا جواب دہ ہوگا، یہی وہ خوف وڈر ہے جو اسے برائیوں سے بچاسکتا ہے، اس کام کے لیے اللہ تعالیٰ نے انبیاء علیہ السلام کو مبعوث کیا، آخری نبی محمد … نے اللہ کی ہدایت کی روشنی میں صالح معاشرہ قائم کیا جو اپنی مثال آپ ہے، جب تک مندرجہ بالا تعلیمات کی روشنی میں ماحول اور معاشرہ کی اصلاح و تعمیر نہیں ہوگی جرائم اور خبائث کا خاتمہ نہیں ہوگا۔ آج کل جرائم کا انبار لگا ہوا ہے، وہ ہمیشہ نئے انداز میں ہر دور میں اپنا سرابھارتے رہتے ہیں۔ رشوت خور اور غیرذمہ دار انتظامیہ غیراخلاقی ماحول میں اس کی اصلاح ناممکن ہے؛ اس لیے ضروری ہے کہ مندرجہ بالا خطوط پر سوچا جائے، اس کے بغیر جرائم اور برائیوں کا خاتمہ ممکن نہیں ہے

. اللہ تعالیٰ قوم پر رحم فرمائیں اور صحیح خطوط پر سوچنے، غور کرنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے،طلباء کی شخصیت کیا ہوتی ہے؟ طلباء کا مقام کیا ہے؟ میں گوشت پوست کو طلباء کی شخصیت قرار نہیں دیتا۔ میرے نزدیک طلباء کا وجود اس ذہن کا نام ہے جو علم کے طلب کرنے والا ذہن ہے۔ علم ایک نور ہے اور نور جہاں آتا ہے ظلمت دور ہو جاتی ہے اور جہاں ظلمت دور نہ ہو سمجھ لو کہ وہاں نور آیا ہی نہیں، طلباء کا معیار، طلباء کے وجود کی علامت اور طلباء کے راہِ راست پر ہونے کی جو نشانی ہے وہ یہ ہے کہ جن طلباء کا ذہن صاف و روشن ہے، سمجھ لیجئے کہ وہ طلباء ہیں، علم کے طالب ہیں۔ علم کی راہوں پر چل رہے ہیں اور انہیں علم حاصل ہو رہا ہے۔ جو طالب علم اپنے ذہن کے اندر کوئی روشنی نہیں پاتا وہ سمجھ لے کہ میں علم سے محروم ہوں۔
علم ایسا نور ہے یاسر.جو ذہن کو روشن کرتا ہے جو دل کو روشن کرتا ہے جو دماغ کو روشن کرتا ہے۔ جو طلباء اس نور سے محروم ہیں، ان کو ان امور کی طرف نظر کرنی چاہئے جو اس کی راہ میں مانع ہیں اور جو نور علم کے لئے رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ ان رکاوٹوں کو دور کرے اور ان راہوں کو صاف کرے جن راہوں سے ذہن اور دل کے اندر نور آتا ہے۔ مطلب یہ کہ طلباء وہ ہیں جن کا ذہن علم کے نور سے منور اور روشن ہو گا تو پھر ان کا عمل اور کردار بھی روشن ہو گا کیونکہ عمل کی عمارت تو ہمیشہ علم کی بنیادوں پر قائم ہوا کرتی ہے۔

تاریک کردار اس کا ہوگا جس کا دماغ تاریک ہو گا۔ طلباء کا معاشرے میں مقام یہ ہے کہ وہ اپنے ذہن کو روشن کر کے قوم کے ذہن کو روشن کریں۔ طلباء کی جس جماعت کا ذہن روشن نہیں، سمجھئے وہ اپنے مؤقف پر نہیں ان کا وہ مقام نہیں ہے۔ تو طلباء کا پہلا مقام یہ ہے کہ وہ علم کے نور سے اپنے ذہن کو روشن کریں اور پھر وہی روشنی قوم تک پہنچا کر قوم کی ذہنی تاریکیوں کو روشنی میں بدل دیں۔ یہ ہے طلباء کا معیاری اور بنیادی کردار۔ اس کردار کو ادا کئے بغیر طالب علم کا نہ کوئی ابتدائی مقصد قرار پاتا ہے، نہ انتہائی، اور یہ روشنی جو تمہارے دماغوں کو صاف کرے گی، مادی علوم سے حاصل نہیں ہو سکتی۔ اس کا حاصل کرنا اسلامی علوم کے بغیر ناممکن ہے۔ اس لئے کہ مادے میں تاریکی ہے۔ مادہ خود تاریک ہے۔ تاریکی سے تاریکی کے سوا کیا مل سکتا ہے۔ اگر آپ کو یہ نور حاصل کرنا ہے تو آپ اسلامی علوم کی طرف بھی توجہ دیں۔

اگر ہمارا کردار غلط ہوا تو قوم کا کردار صحیح نہیں ہو سکتا۔ قوم کے کردار کو ہم نے بچانا ہے۔ قوم کے دماغ کو ہم نے روشن کرنا ہے، ملک کا مستقبل ہماری دامن سے بندھا ہوا ہے۔ ہماری قوم کی فلاح، ہماری قوم کی نجات، ہماری قوم کی ذہنی نشو ونما اور ہماری قوم کے تمام ذہنی ارتقاء کا دار ومدار تمہارے اپنے ذہنی ارتقاء پر ہے۔ قوم کے کردار کا مدار ہمارے اپنے کردار پر ہے۔ اس لئے ہمارا ذہن روشن ہونا چاہئے اور ہمارا کردار بلند ہونا چاہئے۔ تم اپنی اس روشن دماغی اور خوش کرداری کے ساتھ اپنی قوم کی وہ بہترین خدمت انجام دے سکتے ہے کہ جو خدمت معاشرے میں کوئی دوسرا گروہ انجام نہیں دے سکتا، ہم اپنے ملک کی فلاح کے لئے، اپنی ملت کی فلاح کے لئے، اپنی قوم کی فلاح کے لئے وہ سب کچھ کر سکتے ہیں جو ہمارے سوا کوئی اور گروہ نہیں کر سکتا۔

یہ مختصر سا میرا کالم ہے، میں خدا سے دعا کرتا ہوں کہ خدا میرے عزیز طلبا کو اس کی توفیق عطا فرمائے کہ وہ اپنے ذہنوں کو روشن کریں اور اپنے کردار کو بہتر بنائیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں