401

مودی اور مولانا،،، تحریر: محمد عمران چوہدری

پی ٹی آئی سرکار کے اقتدار میں آنے کے نو ماہ بعد صورت حال یہ تھی، غریب عوام پر زمین تنگ ہورہی تھی، اربوں روپے کے نئے ٹیکسز کی بدولت عوام کی چیخیں نکل رہی تھیں، مہنگائی کا جن کوشش کے باوجود بے قابو ہورہا تھا، یوٹیلٹی اسٹورز پر عوام کی لمبی قطاریں، اشیائے ضروریہ کی غیر موجودگی، پٹرول، ڈیزل کی آسمان کو چھوتی قیمتیں، کرپشن کی بڑھتی سطح، لوٹی ہوئی دولت کو واپس لانے میں ناکامی، ترقیاتی منصوبوں پر کام کی سست رفتاری کی بدولت حکومت کی قابلیت پر سوالیہ نشان لگ چکا تھا۔

ان حالات میں مخالفین تو حکومت پر برسنے کو تیار تھے ہی، دوست بھی پریشان تھے کہ حکومت کی مدد کیسے کی جائے۔ کیونکہ حکومتی درخواست پر 90 اور ڈی جی آئی ایس پی آر کی درخواست پر 180 دن کا عرصہ گزرے بھی 90 دن ہوچکے تھے۔

ایسے میں آج سے کم وبیش تین ماہ قبل شری نارائین مودی جی، خان صاحب کی مدد کو آئے۔ آپ نے شیخ چلی کی طرح کشمیر نامی سونے کی مرغی سے ہر روز ایک انڈہ لینے کے بجائے، پوری مرغی ہی ذبح کرڈالی۔ آپ کی اس مہربانی کی بدولت عوام، خواص، غریب، امیر ملکی و بین الاقوامی پرنٹ، الیکٹرانکس و سوشل میڈیا، ہر ایک فرد خان صاحب کی کارکردگی کو پس پشت ڈال کر آپ کو لعن طعن کرنے میں مصروف ہوگیا۔
اور رہی سہی کسر خان صاحب کی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ہونے والی تقریر نے پوری کردی۔ دوست دشمن ہر ایک شخص خان صاحب کی معاشی میدان میں کارکردگی کو بھول کر حکومت کی تعریف کرتا نظر آیا۔

پاکستانی عوام کشمیر کی خاطر یہ تک بھول گئے کہ پشاور میٹرو ابھی تک مکمل نہیں ہوئی، پٹرول ڈیزل کی قیمت آسمان کو چھو رہی ہے، اشیائے ضروریہ عوام کی پہنچ سے دور ہوچکی ہیں، سی پیک پر کام کی رفتار سست ترین ہوچکی ہے وغیرہ۔

اور پھر اس سے پہلے کہ کشمیر پر عوام کا جوش خروش ماند پڑجاتا، اور حکومت کارکردگی دکھانے پر مجبور ہوتی، مولانا فضل الرحمن حکومت کی مدد کو آئے۔ آپ نے آزادی مارچ کا اعلان کرکے درحقیقت حکومت کو نئی زندگی دی ہے۔ کیونکہ اگر مولانا مارچ کا اعلان نہ کرتے تو اس وقت چہار سو حکومت کی کارکردگی زیر بحث ہوتی اور حکومت کو دامے درمے سخنے کارکردگی دکھانی پڑتی۔

اس وقت صورتحال یہ ہے مولانا کی مہربانی سے عوام، خواص، غریب، امیر ملکی و بین الاقوامی پرنٹ، الیکٹرانکس و سوشل میڈیا ہر کوئی آزادی مارچ پر بحث کرنے میں مصروف ہے۔ آپ کسی بھی چینل کو آن کریں، مولانا یا مولانا کا کوئی نمائندہ اپنے زریں خیالات کا اظہار کررہا ہوگا۔

میری اور ان تمام لوگوں کی، جو عمران خان کو کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں اور وہ عمران خان پر ہونے والی تنقید کو برداشت نہیں کرسکتے، یقینی طور پر یہ خواہش ہوگی کہ خان صاحب اس موقع کا فائدہ اٹھا کر اپنی ٹیم کی تشکیل نو کریں۔ کارکردگی نہ دکھانے والوں کو آرام کا موقع دیا جائے۔ ہر ٹیم میں تین طرح کے افراد ہوتے ہیں، ایک وہ جو کام جانتے ہیں اور کام کرتے بھی ہیں، دوسرے وہ جو کام جانتے ہیں، مگر کام نہیں کرتے، تیسرے وہ جو کام نہیں جانتے اور کام کرنا بھی نہیں چاہتے۔ موخرالذکر دونوں طرح کے افراد کو حکومتی کشتی سے اتار کر پوری کشتی کو ڈوبنے سے بچانا بہتر ہوگا۔

اہداف کا ازسر نو تعین کیا جائے۔ سابقہ حکومتوں کے منصوبوں کو ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں فراخدلی کے ساتھ مکمل کیا جائے، تاکہ آئندہ اس قسم کے سہاروں کو تلاش نہ کرنا پڑے۔ اگر خان صاحب اور ان کی ٹیم نے کارکردگی نہ دکھائی اور گزشتہ حکومت کی کارکردگی کا رونا ہی روتے رہے تو وہ دن دور نہیں جب ان کا کنٹینر سے شروع ہونے والا سفر دوبارہ کنٹینر پر ہی اختتام پذیر ہوگا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں