364

طلبا مارچ سے طلبا تنظیموں تک

اس وقت پاکستان میں سب سے زیادہ زیربحث موضوعات میں ایک موضوع طلبا تحریک اور طلبا تنظیموں کا ہے۔ میں چونکہ خود بھی ایک جامعہ کا طالب علم ہوں، لہٰذا اس نسبت سے میں نے اس تحریک کی تفصیلات ذرا اشتیاق سے دیکھیں ہیں۔ جن مطالبات کے ساتھ یہ طلبا کھڑے ہیں، ان سے فی الاصل تو اختلاف شاید ممکن نہ ہو مگر ان سے اس اتفاق کے ساتھ میرے چند بنیادی تحفظات بھی ہیں۔

طلبا تنظیموں کی بحالی پورے پاکستان کے طلبا کا مطالبہ ہے۔ ان طلبا میں ہر رنگ، علاقے، ثقافت، مذہب و سیاسی و سماجی نظریے کے حامل طلبا شامل ہیں۔ مگر اس احتجاج کو سرخ رنگ سے اس طرح رنگ دیا گیا ہے کہ گویا یہ صرف کمیونسٹ طلبا کا مسئلہ ہے اور یہ تحریک کوئی مارکسی تحریک ہے۔ میرے خیال میں ہر وہ تحریک و مطالبہ جو قومی نوعیت کا ہو اور براہِ راست عوام سے متعلق ہو، اس کو اس طرح کسی ایک نظریے کا جامہ پہنانا یا اسے کسی ایک نظریے سے مخصوص کرنا قطعاً درست نہیں ہے۔ ایسی کوئی بھی تحریک اپنے

ظاہر وباطن میں اس طرح ہونی چاہیے کہ اس سے اجتماعیت کا تاثر ملنا چاہیے۔

میرے خیال میں ’ایشیا سرخ ہوگا‘ جیسے نعروں کی بھی طلبا تنطیموں کی بحالی کی تحریک میں کوئی ضرورت نہیں ہے۔ یہ صرف ایک طبقے کا نعرہ و منشور ہے، نہ کہ پاکستان کے تمام طلبا کا مطالبہ ہے۔ ایشیا سرخ ہوگا یا سبز ہوگا، اس وقت یہ بحث ہی بے محل اور قبل از وقت ہے۔ یہ سیاست کے میدان کا اگلا مرحلہ ہے۔ یعنی جب آپ باقاعدہ اس نظام کا حصہ بن جائیں تو پھر آپ کسی ایک سیاسی نظام کو تجویز کریں گے اور اس کے قیام کےلیے سعی کریں گے۔

یہ تحریک تو اگرچہ طلبا کے حقوق کی جدوجہد تھی لیکن سوشل میڈیا پر اس مارچ کے دن کی سرگرمیاں اور اس مارچ کی مختلف تصاویر اور ویڈیوز دیکھ کر ایک لمحے کےلیے بھی یہ گمان نہیں ہوتا کہ یہ کوئی طلبا تحریک ہے یا طلبا کے حقوق کی جدوجہد ہے۔

یہ وہ چند بنیادی نکات ہیں، جن پر مجھے ان طلبا سے اختلاف ہے۔ شاید اس مارچ کے منتظمین تحریک کے اصول و مبادی سے یکسر ناواقف نہ سہی تو غافل ضرور ہیں۔ تحریک ہمیشہ مسائل اور اس سے متعلقات تک محدود رہتی ہے اور وہ ذاتی پسند و ناپسند اور تعصبات سے بالاتر ہوکر بڑے مقصد کے حصول میں مصروف ہوتی ہے۔ تحریک کے کارکن ہمیشہ بنیادی اصولوں پر کاربند مثالی کردار ہوتے ہیں۔ ان منفرد صفات سے عاری کوئی تحریک افراد کا ایک اجتماع تو ضرور ہوسکتا ہے، مگر اسے تحریک قطعاً نہیں کہا جاسکتا ہے۔

ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں لبرل ازم اور روشن خیالی کے نام پر ایک ایسا طبقہ وجود میں آ چکا ہے، جو حالات و واقعات اور موقع و محل سے دانستہ یکسر بے خبر ہے اور جس کا واحد ہدف معاشرتی و اخلاقی اقدار ہیں۔ چنانچہ ان کی ہر اس نوع کی تحریک و احتجاج میں ان پر ایک رنگ غالب ہوتا ہے۔ میں نے اس کی وجوہات پر بھی غور کیا اور میرے نزدیک یہ نفسیاتی مسئلہ ہے۔ ہم ایک طرف بحیثیت مجموعی احساس کمتری کا شکار ہیں اور دوسری طرف ہماری نفسیات معاشرے میں منفرد نظر آنے کی بن چکی ہے۔ چنانچہ ہم ان دونوں مذکورہ اہداف کے حصول کےلیے ہی پیہم مصروف کار ہیں۔

ان بنیادی اختلافات کے بعد میں چند گزارشات پیش کرنا چاہتا ہوں۔ تحریر کا یہ حصہ جہاں ایک طرف گزارشات ہے تو وہاں دوسری طرف یہ وہ بنیادی نکات ہیں جو اس طلبا تحریک اور آئندہ کی طلبا تنظیموں کے پیش نظر ہونے چاہئیں۔

  • جب طلبا تنظیمیں بحال ہوتی ہیں تو ان تنظیموں کو مکمل جمہوری اصولوں پر قائم ہونا چاہیے اور جمہوری سیاست کو فروغ دینا چاہیے، نہ کہ وہ بھی مروجہ سیاسی طرز کی جماعتوں یا تنظیموں میں بدل جائیں۔
  • طلبا تنظیموں کو چاہیے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ ان تنظیموں میں طاقت، دولت اور اسلحہ کلچر نہ روایت پائے، بلکہ اصولی اور نظریاتی سیاست کو فروغ دیا جائے۔
  • اس بات کی بھی یقین دہانی ہونی چاہیے کہ وہ معاشرے اور تعلیمی اداروں میں اپنی افرادی، سماجی اور سیاسی قوت سے غیر ضروری مداخلت نہ کریں۔
  • مذہبی، لسانی، علاقی، نسلی، تنظیمی اور سیاسی اختلاف اور فسادات کا حصہ نہ بنیں، بلکہ باہم امن و رواداری کے ماحول میں رہتے ہوئے ایک دسرے کے نظریات سے اختلاف کریں۔
  • سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے طلبا کے تعلیمی معمولات معطل نہ ہوں۔
  • نوجوان نسل کو سیاسی و سماجی شعور اور تحقق و تعلیم اور فکر و تدبر کی جانب راغب کیا جائے۔

ماضی میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ یہی تنظیمیں فسادات کی بھی مرتکب ہوئی ہیں، جس کی سب سے نمایاں مثال کراچی میں مہاجر سندھی، سندھی پنجابی اور پٹھانوں کے مابین تصادم ہیں۔ اس وقت بھی اگرچہ ملک میں باقاعدہ طلبا تنظیمیں تو موجود نہیں ہیں، لیکن دیگر چھوٹی بڑی طلبا تنظیمیں ضرور موجود ہیں۔ مختلف جامعات میں ان طلبا تنظیموں کے مابین تصادم اور اس تصادم کے نتیجے میں جامعات کی بندش اور امتحانی پرچوں کا التوا کوئی نئی بات نہیں اور ایسے واقعات ہم اکثر خبروں میں دیکھتے اور سنتے ہیں۔

میں نے بذات خود ایک عرصہ سرکاری کالج میں گزارا ہے اور وہاں اس نوع کے جھگڑے عام تھے۔ طلبا نے اساتذہ پر تشدد کیا۔ پبلک سروس گاڑیوں والوں پر تشدد کیا جاتا تھا، یہاں تک کہ ان گاڑیوں پر سفر تو پورا کیا جاتا تھا لیکن کرایہ من چاہا دیا جاتا تھا۔ یہ ان ہی طلبا کی قائم کردہ دہشت کا اثر تھا کہ ہم جیسے طلبا بھی جب نئے نئے کالج گئے تو ہم سے بھی گاڑیوں والے بلا کسی بحث و تکرار کے ہماری مرضی کا کرایہ لیتے تھے۔

اگر یہی تاریخ دہرائی جانی مقصود ہے تو یقیناً ایسی طلبا تنظیم معاشرے کےلیے قطعاً سودمند نہیں۔ بلکہ اس سے معاشرے میں تصادم و فسادات میں مزید اضافہ ہوگا۔ ان طلبا اور ان کے منتظمین کو چاہیے کہ وہ غیر ضروری، غیر متعلقہ اور بے محل مطالبات و حرکات کے بجائے اصل مدعا کی طرف توجہ دیں۔ ماضی کی غلطیوں سے سیکھیں اور آئندہ کا لائحہ عمل طے

کریں۔

نوٹ: روزنامہ رھبر  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

اعزاز کیانی

اعزاز کیانی

بلاگر آئی ٹی کے طالبعلم ہیں، انسانی معاشرے سے متعلقہ تمام امور ہی دلچسپی کے موضوعات ہیں۔ شاعری سے بھی شغف رکھتے ہیں اور شعراء میں اقبال سے بے حد متاثر ہیں جبکہ غالب بھی پسندیدہ شعراء میں سے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں