392

ہمارے معاشرے میں عورت کا مقام: تحریر یاسر دانیال صابری

گلگت بلتستان سمیت پوری دنیا میں عورتوں کے دن با عزت منایا جاتا ہے۔اب ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام میں عورت کو کیا مقام حاصل ہے۔ جب آج کی ترقی یافتہ اقوام کی عورتوں کے حقوق کی بات کی جاتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے یہ حقوق کئی صدیوں میں حاصل کئے اور نبیؐ کی بعثت کے کئی سو سال بعد حاصل کئے جبکہ نبیؐ اور ان پر اترنے والا قرآن بہت پہلے عورتوں کو وہ مقام ،وہ عزت ، وہ رتبہ دے چکا تھا جو شاید آج بھی ان ماڈرن اقوام کی عورتوں کو حاصل نہیں۔ سب سے پہلے مرحلے پر تو عورت کے مقام کا تعین ہے کہ اس مرد و زن کی دنیا میں اس کی کیا حیثیت ہے۔ اس کی حیثیت کا تعین اُسی وقت ہوگیا تھا جب حضرت حوّا کی تخلیق بطور حضرت آدمؑ کی شریک سفر کی گئی جنت میں بھی آدم کو حوا کی ہمراہی کی ضرورت تھی۔ اصل میں یہی مرد و زن کا خوبصورت رشتہ ہے جو سب سے پہلے تخلیق پایا۔ اسکے بعد باقی رشتے بنتے چلے گئے۔ یہاں پر اللہ تعالیٰ نے مرد کو عورت کا قوام قرار دیا جیساکہ سورۃ نساء میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ مرد عورتوںپر قوام ہیں۔ اس بناء پر کہ اللہ نے ان میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے۔ ساتھ ہی یہ وضاحت کر دی کہ یہ فضیلت اس لئے دی گئی ہے کیونکہ مرد اپنے مال خرچ کرتے ہیں یعنی ان کا یہ فرض ہے کہ وہ معاشی ذمہ داریاں اٹھائیں لہٰذا جب وہ کمانے والا ہوگا گھر کا یا خاندان کا نظام اسکے کمائے ہوئے پیسے سے چلے گا تو اس کا درجہ بھی زیادہ ہوگا۔

جیساکہ سورۃ بقرہ میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ، عورتوں کیلئے بھی معروف طریقے پر ویسے ہی حقوق ہیں جیسے مردوں کے حقوق ان پر ہیں۔ البتہ مردوں کو ان پر ایک درجہ حاصل ہے۔ یہ بات بہت پُرحکمت ہے کہ صرف ایک درجہ بلند کرکے مرد کو زیادہ ذمہ داریاں سونپ دی گئی ہیں۔ یہاں پر بھی عورت فائدے میں رہی کہ اس پر ڈائریکٹ کسی قسم کی ذمہ داری اسکے علاوہ نہیں ڈالی گئی کہ وہ مردوں کے پیچھے اللہ کی حفاظت و نگرانی میں انکے حقوق کی حفاظت کرتی رہیں اور صالح اواطاعت شعار عورت کی نشانی بتائی گئی اب جو مرد اپنی بیویوں سے یہ توقعات رکھتے ہیں کہ وہ معاشی طور پر بھی ان کیلئے ہر طرح سے مدد گار ہوں تو پھر انہیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جس بنا پر انہیں عورت پر صرف ایک درجہ فضلیت دی گئی ہے وہ کچھ کمپر مائزنگ ہو گیا ہے –

خیر ہم دوبارہ قرآن کی طرف آتے ہیں قرآن جس طرح عورت کی تصویر کشی کرتا ہے وہ عورت کا کردار زندگی میں متعین کرتا چلا جاتا ہے جب سورۃ آل عمران میں حضرت مریم کی ماں کا ذکر آتا ہے تو ہ ہمارے ہمارے سامنے ایسی عورت کے روپ میں آئی ہے جس کا ایمان اور اپنے رب کیلئے محبت اس قدر مضبوط ہے کہ وہ اپنی اولاد کو اللہ کے کام کیلئے وقف کر دیتی ہے اتبا بڑا فصیلہ ایک عور ت سے کروایا گیا پھر آگے سے وہ عورت جو اس کی بیٹی تھی جس کو اس شیطان کے فتنے سے اللہ کی پناہ میں دیا تھا اس قدر مضبوط اور متوکل شخصیت کے روپے میں ابھرتی ہے کہ حضرت زکریا جیسے پیغمبر اس سے پوچھنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ کھانا تمہارے پاس محراب میں کہاں سے آتا ہے اور اس کا جواب پا کر حیرت زدہ رہ جاتے ہیں کہ یہ میرے پاس اللہ کے پاس سے آتا ہے پھر اس لڑکی کو فرشتے خوشخبری دیتے ہے کہ اے مریم اللہ نے تجھے برگزیدہ کہا اور پاکیزگی عطاء کی کیا شان ہے اس عورت کو جس کو اللہ نے اتنے بڑے کام کیلئے چن لیا آپ کے ہاں حضرت یحیی ؑکی ولادت ہوئی جبکہ آپ کو کسی بشر نے کبھی نہیں چھوا تھا یہ اللہ کی بہت بڑا معجزہ تھا جس کے اظہار کیلئے آپکا انتخاب کیا گیا-اسکے بعد فرعون کی بیوی کا جو ذکر قرآن میں آیا ہے وہ عورت کی عظمت کا مزید اظہار ہے کس طرح وہ پیار محبت سے حضرت موسی ؑکی پرورش کرتی ہے کس طرح وہ دنیا وی شان و شوکت سے منہ موڑ کر اللہ تعالی سے جنت میںاپنے لئے رہے گھر بنانے کی آرزو کا اظہارکرتی ہے پھر اگر ہم حج کے ارکان کی طرف آتے ہیں تو مفادعامہ کی سعی کو حج کے ارکان میں اس لئے شامل کر دیا گیا یہ ایک ماں کی سعی تھی اپنی اولاد کی جان بچانے کیلئے پانی کی تلاش میں اللہ کو ماں کی یہ سعی اتنی پسند آئی کہ وہ حج کا مستقل رکن قرار پائی -پھر جب معاشرے میں عورت کا مقام متعین کرنے کا وقت آیا تو اس کو اس قدر رتبہ دیا گیا اس قدر اسکے ناز اور لاڈ اٹھائے گئے کہ کہا گیا کہ اپنی نظروں کو جھکا کر رکھو اپنی نظروں سے بھی اسے ہراساں کرنے کی کوشش نہ کرو۔ آپکو ڈھانپ کر باہر نکلنا اپنی عزت و آبرو کی حفاظت کرنا تا کہ اللہ تعالی تمہیں جو مقام دینے جا رہے ہیں تو اپنے آپ کو اس کی اہل ثابت کر سکو اور خبر دار اس طرح کی پاک دامن عورتوں کی طرف نگاہ اٹھائی دور کی بات اگر تم ان پر بغیر چار گواہوں کے کوئی بہتان لگاتے ہو تو پھر اس کوڑے کھانے کیلئے تیار رہوں اگر یہ عورت شادی کرتی ہے تو اسکی عزت افزائی کی گئی ہے کہ مرد اس کو مہرادا کر یگا او راس کی کوئی حد مقرر نہیں کی گئی یہ ڈھیر مال بھی ہو تو تم کسی بھی صورت ان سے واپس لینے کے مجاز نہیں یہاں تک کہ تم انہیں چھوڑنے کا فیصلہ بھی کرلو تب بھی نہیں ،پھر عورت کا وراثت میں حصہ مقرر کر دیا گیا یہ اسلام ہی ہے جو عورت کے ہر رول میں اس کو جائید اد میں مناسب حصہ دے رہا ہے -یہ سب عورت کو حقوق دیئے جا رہے ہیں اور فرائض کے معاملے میں اس قدر نرم رویہ رکھا گیا ہے کہ اگر ماں اپنے بچے کو دودھ بھی پلانا نہیں چاہتی تو باپ معاوضہ دیکر اپنے بچے کو کہیں اور سے دودھ پلانے کا ذمہ دار ہے۔

اب طلاق جیسے نا خوشگوار فیصلے کے موقع پر بھی مرد کو تلقین کی جا رہی ہے کہ عورت کو بھلے طریقے سے رخصت کرنا کچھ دے کر یہ تاکید سورہ بقرہ میں کی جار ہی ہے یعنی عورت کی ہر طرح سے دلجوئی کسی نہ عورت کو آدھی گواہی کے بارے میں بہت سننے میں آتا ہے –

یہاں یہ بھی اللہ کی عورت کی لئے محبت اور نرمی کا پہلو نمایاں ہے کہ گواہی کی ذمہ داری کوئی چھوٹی سی بات ہے جو عورت جیسی نرم و نازک احساسات کی مالکہ کو نبھانا پڑے تو وہ اس کو بخوشی نبھا جاسکے لہذا عورت کیوں چاہتی ہے کہ وہ ان ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھائے جو اسکی فطرت کیخلاف ہیں کیوں نہیں وہ اپنے رول کو اس کائنات میں پہچاتی اور اس بخوبی نبھاتی- اگرچہ یہ سوال ہر قوم کے سوچنے اور سمجھنے والے لوگوں میں ہمیشہ زیر بحث رہا ہے کہ معاشرے میں عورت کا مقام کیا ہونا چاہئے۔ قومی زندگی میں اس کا فطری کردار کیا ہے۔

لیکن ہمارے یہاں پر سوال ایک عرصے سے خاص طور پر اس وجہ سے موضوع بحث بنا ہوا ہے کہ مغربی تہذیب اور انگریزی اقتدار کے زیر سایہ یہاں جس جدید تعلیم کا چرچا ہوا اس نے ہماری سابقہ روایات کے برعکس خواتین کے اندر یہ جذبہ پیدا کیا کہ وہ اپنی سرگرمیوں کا دائرہ صرف اپنے گھر تک محدود نہ رکھیں بلکہ گھر سے باہر کی زندگی میں بھی عملی طور پر حصہ لیں اور مردوں کے شانہ بشانہ کام کر کے قومی ترقی میں اپنا کردار ادا کریں۔ معاشرے میں عورت کا فطری مقام اس کا گھر ہے جہاں وہ اپنی چھوٹی سی ریاست کی ملکہ ہے اور اپنے شوہر کی وفا اور اطاعت گزار رفیقہ ہے۔ اسی چیز سے قومی زندگی میں اس کے فطری کردار کو سمجھا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے ماں کے بغیر گھر قبرستان ہے۔

عورت کا معاشرتی اور اجتماعی شعور اگر پختہ اور ترقی یافتہ ہو تو وہ اصلاح نسواں کے مختلف کاموں پر عمل کر سکتی ہے جن کے ذریعے سے وہ گھر کی زندگی کے ساتھ ساتھ باہر کی زندگی پر بھی اپنے خوشگوار اثرات مرتب کر سکتی ہے اگر عورت اچھی ہے تو ریاست بھی اچھی ہو گی
.
ہماری سماجی اور معاشرتی ذمہ داری ہے کہ ہم خواتین کے حقوق کے حوالے سے جاری خلاف ورزیوں کے خلاف آواز بلند کریں اور معا شرے سے اونچ نیچ کا خاتمہ کریں ۔موجودہ حکومت اس سلسلے میںقانون سازی تو کر رہی ہے لیکن صورتحال کی اصلاح کیلئے تیزرفتاری سے کا م کرنے کی ضرورت ہے. پاکستان بھر کی خواتین معاشی و سیاسی عمل میں بھرپور شرکت کے ذریعے غیر منصفانہ نظام کا خاتمہ کر سکتی ہیں۔یہاں المیہ یہ ہے کہ پاکستان میں غیر رسمی شعبے میں 80 فیصد خواتین کام کر رہی ہیں جو قوانین محنت کے تحت تحفظ سے محروم ہیں۔ پاکستان کے کئی علاقوں میں آج بھی خواتین ووٹ کے حق سے محروم ہیں۔ حکومت کے نظام میں خواتین کی نمائندگی 33 فیصد سے کم کر محدود کر دی گئی ہے۔معاشرتی رویوں کی بات کریں تو ایک بین الاقوامی تنظیم ہیومن رائٹس کے مطابق70 سے 90 فیصد خواتین تشدد کا شکار ہیں ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ہرسال پانچ ہزار خواتین گھریلو تشدد کے باعث زندگی سے محروم ہو جاتی ہیں۔خواتین کی تعلیمی شرح صرف تیس فیصد ہے قوانین ہونے کے باوجود خواتین وراثت کے حق سے محروم ہیں۔
پاکستان کی عدلیہ میں پانچ ہزار فیصد خواتین جج ہیں۔پاکستان بار کونسل کی صورتحال بھی ایسی ہی ہے۔حالانکہ ہمارا قانون مردوں کی طرح عورتوں کو بھی تعلیم، شعبے اور پیشے کے انتخاب کی اجازت دیتا ہے۔

پاکستان میں خواتین ڈاکٹرز کی بہت بڑی تعداد ہے۔ خواتین کی ایک بڑی تعداد وکیل، صحافی، سیاست دان، سرکاری ملازم، سفارت کار، پولیس افسر، سکول ٹیچر اور کالج میں پروفیسر،بینکرز، انجینئرز اور حتیٰ کہ صنعت کار بن رہی ہیں۔ پاکستانی عورتوں کی بڑی تعداد مختلف قسم کے سٹورز کی مالک ہے اور دیگر کاروبار چلا رہی ہیں۔ پھر ان کی محرومی اور برے سلوک سے دیہاتی خواتین یا کم پڑھی لکھی خواتین زیادہ اثر انداز ہو رہی ہیں۔پاکستان کے پسماندہ علاقوں میں آج بھی خواتین پر تشدد کے واقعات عام ہیں بلکہ بڑے شہروں اور قصبات میں یہ شرح دیہی علاقوں کی نسبت مقابلتاً کم ہے۔ شہری علاقوں جہاں پر خواندگی کی شرح زیادہ ہے میں خواتین نے کسی حد تک معاشی خودمختاری حاصل کر لی ہے وہ اپنی شادی شدہ زندگیوں میں تشدد برداشت نہیں کرتیں اور اگر کہیں ایسا ہے تو وہ اپنی ماؤں اور دادیوں کی طرح برداشت کرنے کی بجائے شادی ختم کرنا چاہتی ہیں۔

ایسی صورت میں نہ تو اسلام اور نہ ہی قانون اور عوامی رائے انہیں ایسا کرنے سے روکتے ہیں۔ ایسے معاملات میں جہاں وہ اپنے غیر مہذب شوہروں کو برداشت کرتی ہیں تو وہ زیادہ تر اس وجہ سے کہ ان کے پاس دوسرا کوئی راستہ نہیں ہے۔ بعض معاملات میں معاشی تحفظ پر مبنی رسم و رواج اور غیرت کا طبقاتی تصور عورتوں کو اس تکلیف دہ تعلق کو جاری رکھنے پر مجبور کرتا ہے۔لہٰذاجوں جوں ملک تعلیمی اور معاشی حوالے سے ترقی کرے گا۔ پاکستانی اور گلگت بلتستانی عورت کی حالت ضرور بدلے گی.وسلام…

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں