329

حرمین شریفین کے تحفظ کی قسم کھائی ہے! کالم:صدائے سحر تحریر:شاہد ندیم احمد

اسلام اور مسلمانوں کو اتنا نقصان غیروں نے نہیں پہنچایا جتنا کہ خود مسلمانوں نے پہنچایا،اس کی وجہ فروعی اختلافات اور علاقائی تعصب رہا ہے۔ امت مسلمہ کے باہمی اختلافات کا نتیجہ ہے کہ مشرق وسطیٰ مبارزت کے دہانے پر کھڑا دکھائی دے رہا ہے۔

اس کی حالیہ وجہ سعودی عرب کے تیل کی تنصیبات پر حملہ ہے، جس کا الزام ایران پر لگایا جا رہا ہے، ایران اس کی تردید کر رہا ہے، لیکن امریکہ جلتی پر تیل ڈالنے میں مصروف ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت سے قبل سعودی عرب میں اپنے دو روزہ قیام کے دوران وزیراعظم عمران خان نے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کو سعودی تیل کی رسد گاہوں پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے یقین دلایا کہ حرمین شریفین کے تقدس و سلامتی کو خطرے کی صورت میں سعودی عرب کے ساتھ کھڑے ہوں گے، شاہ سلمان نے بھی مسئلہ کشمیر پر دیرینہ حمایت اور یکجہتی کا اعادہ کیاہے،جبکہ دوسری جانب سعودی آئل تنصیبات پر حملے کے بعد امریکہ اور ایران آمنے سامنے آ گئے ہیں اور لفظی جنگ جاری ہے۔ ایران اور سعودی عرب میں سے کوئی بھی جنگ نہیں چاہے گا، تاہم ان کے حلیفوں میں سے کسی نے کوئی بڑی کارروائی کر دی تو معاملات کو خرابی بسیار کی طرف جانے سے کوئی نہ روک سکے گا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایک طرف کہہ رہے ہیں کہ سعودی عرب کی حفاظت کی کبھی ہامی نہیں بھری تو دوسری طرف ایران کیخلاف جنگی تیاریوں کی بات ہو رہی ہے یہی مبہم طرز عمل خطے میں اضطراب کی اصل وجہ ہے۔ مشرق وسطیٰ کے ممالک کو خود سوچنا ہوگا کہ آخر وہ کب تک دوسروں کے ہاتھوں استعمال ہوتے رہیں گے، آج عالمِ اسلام اتحاد و اتفاق کے بجائے انتشار و افتراق کا شکار ہے،اسلام مخالف قوتوں کی سازشوں کو ناکام بنانے کیلئے امہ کو باہمی تصادم کی راہ روکنا ہو گی۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ سعودی عرب کو مشرق وسطیٰ میں ایک کٹھن صورت حال کا سامنا ہے۔ ایک طرف خطے کا امن اور امت مسلمہ کی وحدت کا خیال ہے تو دوسری طرف اسے اندیشہ ہے کہ ایران کے حامی گروپ پورے مشرق وسطیٰ میں سعودی مفادات کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ سعودی عرب کے لئے سب سے زیادہ تشویش یمن میں برسر پیکار حوثی باغی ہیں، ایک عام تاثرہے کہ ان باغیوں کی سرپرستی ایران کر رہا ہے،یہ حوثی باغی کئی بار سعودی حدود میں میزائل فائر کر چکے ہیں،سعودی دفاعی نظام نے ان میزائلوں کو اکثر اوقات فضا میں ہی ناکارہ بنا دیا،تاہم رواں ہفتے تیل کمپنی آرامکو پر حوثیوں کا میزائل حملہ سعودی عرب کے لئے خطرے کی علامت ہے۔ آرامکو بنیادی طور پر امریکی کمپنی ہے جس نے 1970ء کی دہائی میں سعودی عرب کے مستند تیل ذخائر کا حجم110ارب بیرل بتایا تھا۔ ایک رپورٹ بتاتی ہے کہ سال 2019ء کی پہلی ششماہی میں آرامکو نے 46.9ارب ڈالر کا منافع کمایا ہے جو گزشتہ برس کی نسبت 12فیصد کم ہے۔ آرامکو اپنے حصص بیچنا چاہتی ہے۔ گزشتہ ماہ بھارت کے ریلائنس گروپ نے آرامکو کے 12ارب ڈالر کے لگ بھگ حصص خریدے، آرامکو کے تیل ذخائر ہمیشہ سخت سکیورٹی میں رہتے ہیں۔ امریکہ نے سعودب عرب کو میزائل ڈیفنس سسٹم فراہم کر رکھا ہے، لیکن اس بار یہ نظام بھی کام نہیں کر سکا۔ آرامکو پر حملہ دراصل اب امریکہ‘ بھارت سعودی عرب کے مشترکہ مفادات پر حملہ تصور کیا جا رہا ہے، اس لئے عالمی سطح پر ایک اضطراب موجود ہے۔اس حملے کا جواب دے کر کچھ عالمی طاقتیں امت مسلمہ کو تقسیم کرنے اور مزید نقصان پہنچانے کے در پے ہیں۔
بلا شبہ حرمین شریفین کا تحفظ ہر مسلمان کے ایمان کا حصہ ہے، حرمین کے تحفظ کی امت مسلمہ نے قسم کھائی ہے، اگر کوئی کوتاہی ہوئی تو تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔ کفار کی شہ پر مسلم ممالک کے اندر فساد اور انارکی پیدا کرنے والے منافقین امت مسلمہ کے لئے شدید خطرہ بن چکے ہیں۔ یمن میں بغاوت ایران اور سعودی عرب کا مسئلہ نہیں اور نہ ہی یہ شیعہ سنی لڑائی ہے۔ صلیبی و یہودی سازش کے تحت اس مسئلہ کو الجھانے کی خوفناک سازشیں کر رہے ہیں،پاکستان باہمی اختلاف کو جنگ کی بجائے مذاکرات میں تبدیل کرنے کی پوزیشن میں ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے سعودی عرب کو درپیش داخلی و خارجی چیلنجز پر مدد کی یقین دہانی کراکے 21کروڑ پاکستانیوں کی ترجمانی کی ہے۔ پاکستان اپنے اس موقف کا ہمیشہ اعادہ کرتا آیا ہے کہ وہ مسلمان بھائیوں کے جھگڑے میں کسی ایک فریق کا ساتھ دینے کی بجائے ان کے درمیان تنازعات کو حل کرنے میں مدد دینے کا خواہاں ہے،حرمین شریفین کے احترام اور تحفظ کے لئے پاکستان کا وعدہ غیر مشروط ہے۔ مشرقی وسطیٰ پہلے ہی جنگوں کی آماجگاہ بنا ہوا ہے،اس پر کوئی نئی چنگاری مزید تباہی کا باعث ہو سکتی ہے۔پاکستان اس صورت حال میں امن کی خاطر خواہ کردار ادا کر سکتا ہے جس کے لیے دو طرفہ مشاورت کا سلسلہ جاری رکھنے کی اشدضرورت ہے،تاکہ امت مسلمہ کے خلاف تمام سازشوں کو ناکام بنانے کے ساتھ باہمی اختلاف کو بڑی جارحیت میں تبدیل ہونے سے روکا جاسکے۔

نوٹ: روزنامہ رہبر گلگت بلتستان اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ
[email protected]پر ای میل کردیجیے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں