404

میڈیا اور اخلاقیات .از قلم: پروفیسر ڈاکٹر عطاء اللہ شاہ، شیخ الجامع قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی

میڈیا اور اخلاقیات۔ سیمینار
از قلم: پروفیسر ڈاکٹر عطاء اللہ شاہ، شیخ الجامع قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی

میڈیا خبر(معاشرہ میں رونما ہونے والے واقعات) کی ترسیل اور ترویج کا ایک ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ یہ پرنٹڈ صورت سے ترقی کرتے ہوئے الیکٹرانک اور ڈیجیٹل میڈیا کی صورت اختیار کر تا گیا۔ میڈیا یا ذرائع ابلاغ ہمارے زندگی کا ایک لازمی جز بنتا جار ہا ہے۔ کیونکہ خبر حاصل کرنے اور اس سے باخبر ہونے کا بنیادی ذریعہ آج بھی میڈیا ہے۔ لیکن پچھلے پانچ دہائیوں میں میڈیا ایک طرف پیچیدہ ہوتا جارہا ہے اور دوسری طرف اس کی متنوعیت (Diversity)بھی بڑھتی جارہی ہے۔ میڈیا کی ان مختلف صورتوں میں آج کل سوشل میڈیا بہت تیزی کے ساتھ ایک موثر ذریعہ ابلاغ اور اطلاعات بنتا جارہا ہے۔ سوشل میڈیا عمومی طور پر ڈیجیٹل یا الیکٹرانک پلیٹ فارم کے ذریعے افراد یا اداروں کے ذریعے اطلاعات اور خبروں کی ترسیل اور ایکسچینج کا ذریعہ بنتا جاررہا ہے۔ آج کل ایک کثیر تعداد میں سوشل میڈیا پلیٹ فارم ہمارے گردو پیش میں ظہور پذیر ہو رہے ہیں۔ جن میں ٹیوٹر، گوگل پلس، یاہو، لنکڈان، لسٹ سرو، ای میل ٹیکٹنگ، چیٹ رومز، موبائل ایپ، انسٹاگرام، بلاگز، فیس بک، مائی سپیس، واٹس ایپ وغیرہ شامل ہیں۔ سوشل میڈ یاکی سرعت کے ساتھ ظہور پذیری کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ60 سیکنڈز یعنی ایک منٹ میں تقریباً ایک لاکھ ٹیوٹس کی جاتی ہیں۔ تقریباً 4لاکھ افراد سکائپ پر بات کر رہے ہوتے ہیں۔ 13ہزار ڈاؤن لوڈز آئی فون کے ذریعے ہورہی ہوتی ہیں۔ 17کروڑ ای میل جاری ہوتے ہیں۔ 7لاکھ کے قریب سرچ سوالات پوچھ جارہے ہوتے ہیں۔ 12ہزار نئی اشتہارات پوسٹ ہوتی ہیں۔ فیس بک پر کم از کم 5لاکھ پوسٹ آرہی ہوتی ہیں۔ 7لاکھ کے قریب سٹیٹس اپ ڈیٹ ہورہے ہوتے ہیں۔ گویاسوشل میڈیا کے ایک سیکنڈ میں لاکھوں کی تعداد میں کچھ نہ کچھ ہو رہا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سوشل میڈیا کے ذریعے خبروں کی ترسیل ایک انتہائی موثر، کم قیمت اور قابل اعتماد ذریعہ بنتا جا رہا ہے۔ اگر 2019کے اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے تو اس وقت دنیا کی5ارب سے زیادہ لوگ موبائل فون کا استعمال کر رہے ہیں۔ جو شہری آبادی کا 70فیصد بن جاتا ہے۔ کم وبیش ساڑھے چار ارب افراد انٹرنیٹ استعمال کر رہے ہیں۔ساڑھے تین ارب افراد سوشل میڈیا کو استعمال کر رہے ہیں۔ جو تقریباً آدھی آبادی کے برابر ہے۔ اس وقت سب سے زیادہ افراد یعنی تقریباً 99فیصد لوگ متحدہ عرب امارات میں سوشل میڈیا استعمال کر رہے ہیں۔ اسی طرح امریکہ میں 70فیصد، چین میں 71فیصد، شمالی کوریا میں 85فیصد، ملائیشیا میں 78فیصد، پاکستان میں تقریباً ساڑھے چارکروڑ یعنی 22فیصد آبادی انٹرنیٹ استعمال کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا کی تیزی سے بڑھتے استعمال کی وجہ سے ہماری زندگی پر اس کا اثر بھی بڑھتا جارہا ہے۔ طلبہ کی ذاتی اور تعلیمی زندگیوں پر اس کے انتہائی سنگین اور دور رس اثرات مرتب ہورہی ہیں۔ سوشل میڈیا کے غلط استعمال کی وجہ سے نوکری ختم ہونے، ذاتی تعلقات خراب ہونے اور دیگر سماجی برائیا ں ہونے کے امکانات ہو سکتے ہیں۔ انٹرنیٹ اور الیکٹرانک ذرائع کے ذریعے جرم کے ارتکاب کو سائبر کرائم بھی کہا جاتا ہے۔ صرف ایک دن میں کم از کم دس لاکھ افراد سائبر کرائم کا شکار بنتے ہیں۔ ہر 5میں سے ایک فرد اس کا شکار بنتا ہے۔ سوشل میڈیا استعمال کرنے والے میں کم از کم 40فیصد لوگوں کے ذاتی معلومات اور پروفائل چوری ہونے کا شکار بنتے ہیں۔
میڈیا اور اخلاقیات کے درمیان ایک فطری اور قانونی تعلق کے حوالے سے جی بی پرائیڈ ایسوسی ایشن اور کے آئی یو کے اشتراک سے ایک روزہ سیمینار کا انعقاد ہوا۔ جس کا بنیادی مقصد میڈیا سے منسلک افراد اور طلبہ کے درمیان ذرائع ابلاغ میں اخلاقیات کی اہمیت کو اجاگر کرانے اور ا س ضمن میں بنیادی اصولوں سے واقفیت اور ان پر سیر حاصل بحث کرانے کیلئے موقع فراہم کرانا تھا۔
خبروں کی ترسیل میں اخلاقیات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اور خبر کی صداقت و صحت کی پاسداری کو سمجھنے کیلئے ضروری ہے کہ اہم اسلامی معاشرے میں اخلاقیات کے بنیادی ماٗخذ قرآن و سنت کو سمجھیں۔ اللہ تعالیٰ نے صورۃ حجرات میں خبر کی صحت اور درستگی کیلئے واضح حکم دیتے ہوئے فرمایا۔”اے ایمان والوں!جب کوئی فاسق تمھارے پاس کوئی خبر لے آئے تو اس کی تصدیق کرو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اس خبر کی وجہ سے تمہیں سنگین نقصان پہنچے اور تم بعد میں پچھتاؤ۔“
اسی طرح ”ابو ہریرہ ؒ“ سے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا کہ ایک انسان کے جھوٹا ہونے کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ کسی خبر کی تصدیق کئے بغیر اس کو دوسروں تک پہنچائے۔“
اخلاقیات کی بنیاد عمومی طور پر کسی معاشرے میں مذہبی، معاشی، معاشرتی اور اخلاقی اقدار ہوتے ہیں۔ عمومی طور پر کسی بھی معاشرے میں اچھے اور برے کے درمیان فرق وہاں اخلاقیات کی اساس فراہم کرتی ہے۔ مسلمانوں کیلئے یہ بات زیادہ اہم ہے کہ ان کیلئے اخلاقیات اور اچھے اور برے میں فرق بنیادی طور پر اسلامی تعلیمات پر مبنی ہیں۔ یہی وجہ ایک مسلمان جہاں معاشرتی اقدار کی رو سے اخلاقیات کا پابند ہوتا ہے۔ وہاں اسلامی تعلیمات کی رو سے بھی اخلاقیات اور اخلاقی اقدارکی پابندی اس کیلئے ناگزیر ہے۔ ذرائع ابلاغ اور میڈیا سے منسلک افراد کیلئے ضروری ہے کہ وہ خبر کی اشاعت اور ترسیل کے وقت درج ذیل اخلاقی اقدار کو ملحوظ خاظر رکھیں۔
۱۔ خبر کی سچائی اور صحت: گو کہ ہر خبر کی صداقت اور سچائی معلوم کرنا ایک مشکل امر ہے تاہم صحافی کیلئے ضروری ہے کہ وہ خبر کی سچائی اور اس کا ذریعہ معلوم کرانے کی حتی المقدور کو شش کریں۔
۲۔ صحافی کی آواز: کسی خاص سیاسی، مذہبی، فرقے، علاقائی، لسانی گروہ اور ان کی مفادات کے تحفظ کا ذریعہ نہیں بننا چاہئے اور نہ ہی ان کا آلہ کا ر بننا چاہئے۔ خبروں کے ذریعے معاشرے کے مسائل پر تعمیری تنقید بجا ہے لیکن اس کے ذریعے کسی فرد، ادارے کے تحفظات کو زک پہنچانے کا ذریعہ نہیں ہونا چاہئے۔ ۳۔ غیرجانبداریت اور انصاف پر مبنی خبروں کو پرنٹ اور الیکٹرنک میڈیا کے ذریعے آگے پہنچانا چاہئے۔ کسی بھی کہانی اور رپورٹ کو پیش کرتے وقت تصویر کے دونوں رخ قارئین اور ناظرین کے سامنے رکھنا چاہئے اور ان پر اپنا نقطہ نظر زبردستی مسلط کرانے سے احترازکرنا چاہئے۔
۴۔ صحافیوں کو اپنے الفاظ اور طبع کردہ تصاویر کی وجہ سے لوگوں کو ممکنہ تکلیف اور نقصان پہنے کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھنا چاہئے۔ چنانچہ کوئی بھی خبر انسانی اقدار کے دائرے سے باہر نہ ہوں۔ تاکہ اس سے کسی بھی انسان کو مالی، ذہنی اور جذباتی نقصان کا اندیشہ نہ ہو۔
۵۔ صحافیوں کو اپنا خودمحاسبہ کرنا چاہئے اور اگر کسی بھی خبر کے بارے میں یہ بات سامنے آئے کہ خبر صحیح نہیں تھی تو ان کے اندر اخلاقی جرأت ہونی چاہئے کہ وہ اپنا محاسبہ کرتے ہوئے اس خبر کی تردید بھی کریں اور باقاعدہ متعلقہ قارئین سے معافی اور معذرت بھی کریں۔
سوشل میڈیا کے حوالے سے اخلاقیات کے دائرے میں رہنا یقینا ایک بڑا چیلنج ہے کیونکہ حکومت اور اداروں کو اس پر مکمل قابو پانا یقینا ایک مشکل امر ہے۔ پریس کی آزادی کو ہمیشہ پریس قوانین اور میڈیا اخلاقیات کے تناظر میں دیکھا جائے کیونکہ اظہار رائے کی آزادی کے بنیادی حق کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہم لوگوں یا اداروں کی عزت اور ساکھ کو نقصان پہنچائے یا ایک خاص گروہ کو فائدہ پہنچائے۔ اس کیلئے ہمیں میڈیا اخلاقیات کے دائرے کے اندر رہنا پڑے گا۔ بصورت دیگر پریس قوانین کے روسے کارروائی عمل میں لائی جا سکتی ہے۔ اگر برصغیر پاک و ہند اور قیام پاکستان کی تاریخ کو دیکھا جائے تو یقینا پریس نے اخلاقیات کے دائرے میں رہتے ہوئے یہاں کے مسلمانو ں کے لئے آزاد مملکت کے حصول میں اپنا بھر پور کردار ادا کیا۔ اگر ہم حالات اور واقعات کا تجزیہ اور جائزہ غیر جانبداری سے نہیں کرتے تو یقینا ہم معاشرے کو ایک بڑی فساد کی طرف لے جاسکتے ہیں۔ یہاں یہ امر بھی ملحوظ خاطر رکھنا چاہئے کہ صحافت کا بنیادی مقصد اخلاقیات اور قوانین کے حدود میں رہتے ہوئے عوام تک صحیح، درست اور قابل اعتماد اطلاعات بروقت پہنچانا ہے۔ تاہم وقت کے ساتھ ان اکثر خبروں میں سچ اور صحت کا عنصر معدوم ہوتے جارہا ہے۔
اس سمینار میں میڈیا سٹیڈیز کے ڈاکٹر اکبر علی نے جی بی کے حوالے سے میڈیا کی بنیادی چیلنجز کا خصوصی طور پر ذکر کیا۔ اس مسائل اور چیلنجز میں میڈیا کے اندر پیشہ وارانہ صلاحیتوں کا فقدان، ملکی میڈیا میں GBمیڈیا کی خاص پوزیشن کی کمی، خبروں اور اطلاعات کی بروقت رسائی کے ساتھ اس کے ذریعے کے حوالے سے مسائل ذرائع اور خبروں میں Diversityیعنی متنوعیت کی کمی۔ زبان اور گرامر کی غلطیاں وغیر ہ شامل ہیں۔ان مسائل سے عہدہ براں ہونے کیلئے ضروری ہے کہ میڈیا سٹیڈیز ڈیپارٹمنٹ گلگت بلتستا ن میں میڈیا اور صحافت سے وابستہ افراد کیلئے ایک مربوط ٹریننگ پروگرام وضع کرے۔ جس میں ان کی صلاحیت اور استعداد بڑھانے کے حوالے سے ورکشاپس، سیمینارز، شارٹ کورسز اور ڈپلومہ وغیرہ کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا جائے۔ ڈاکٹر اکبر نے اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ جی بی میں قارئین یعنی اخبارات و رسائل پڑھنے والے افراد کی بھی تربیت ضروری ہے کیونکہ عمومی طور پر لوگ سنسنی خیز خبروں میں زیادہ اور ان کی درستگی اور صحت میں کم دلچسپی رکھتے ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ ان اکثریت قارئین کے اطمینان کیلئے میڈیا اس طرح کی خبروں کو زیادہ پیش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ترقی یافتہ معاشروں میں میڈیا کا ایجنڈا اور رخ کا تعین ان کے قارئین کی ترجیحات سے ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان معاشروں میں سچی، درست اور صحیح خبرو ں کو زیادہ وقعت دی جاتی ہے۔
سیمینار میں ایف آئی اے سے تشریف لانے والے مندوبین جناب طارق پرویز اور جناب علی احمد نے سائبر کرائم کے حوالے سے سیر حاصل بحث کی۔ اس ضمن میں سوشل میڈیا کے ذریعے اس کے غلط استعمال کی وجہ سے لوگوں کو دھوکہ دینا، ان کی پرائیویٹ اطلاعات آشکار کرنا، ان کی ذاتی زندگی میں مخل ہونا، فراڈز اور چوری کرنا وغیرہ، سائبر کرائم کے زمرے میں آتا ہے۔ گوکہ میڈیا قوانین کیلئے پیمرا بنایا گیا ہے لیکن انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعے جرم کے ارتکاب کو روکنے اور خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف تادیبی کارروائی کرنے کیلئے سائبر کرائم قانون 2016ء بنایا گیا ہے۔ جس کا بنیادی مقصد معاشرے میں سوشل میڈیا کے ذریعے جرائم کے ارتکاب کو روکنا اور خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف تادیبی کاروائیاں کرنا شامل ہیں۔ اس وقت ہر ہفتے پورے ملک میں کم و بیش 5ہزار سے 6ہزار تک سائبر کرائمز ہورہے ہیں۔ جن کی تعداد روز افزوں بڑھ رہی ہے۔ اس ضمن میں سائبر کرائم قوانین کے رو سے مختلف سائبر کرائم کے لئے باقاعدہ سز ا اور جرمانے کا بھی تعین کیا گیا ہے۔ یہاں یہ بات یاد رہے کہ سوشل میڈیا کے ذریعے جرم کے ریکارڈ کو چھپانا یا حذف کرنا ممکن نہیں۔ لہٰذا ایف آئی اے کو اس ریکارڈ تک رسائی روایتی جرائم کی تفتیش کے مقابلے میں زیادہ آسان ہے۔ مثلاً کسی کے خلاف ہتک آمیز جملے لکھنے پر 3سال تک سزااور10لاکھ جرمانہ ہوسکتا ہے۔ اسی طرح کسی کے اکاؤنٹ کو چھپانے یا اس کے ذاتی معلومات تک بغیر اجازت رسائی پر تین سال قید اور 50لاکھ جرمانہ، کسی کے تصاویر کے ساتھ نازیبا حرکت کرکے اس کے ذریعے اس کو بلیک میل کرنے پانچ سال قید، کسی کے خلاف نفرت انگیز تقریر کرنے پر سات سال تک قید کی سزا ہو سکتی ہے۔ اس ضمن میں ایف آئی اے جی بی باقاعدہ سائبر کرائم سیل کا قیام کر رہے ہیں۔ جس کے بعد جی بی میں سائبر کرائم کے حوالے سے تفتیش اور تادیبی و قانونی کارروائی کرانے میں آسانی فراہم ہوگی۔ اس وقت سائبر کرائم کی مختلف صورتوں میں انعامی سکیمیں، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے انعامات، بنک فراڈز، اطلاعات کی چور، ذاتی اکاؤنٹس تک رسائی، نفرت انگیز پوسٹس، اغواء برائے تعاوان وغیرہ کی صورتیں شامل ہیں۔ سوشل میڈیا استعمال کرنے والے قارئین اور خصوصاً طلبہ کیلئے ضروری ہے کہ اس کے غلط استعمال سے احتراز کریں اور اسے صرف مثبت کاموں کیلئے استعمال کریں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ انجانے میں کسی بڑے جرم کا ارتکاب کریں۔ جس کی پاداش میں ان کو سزاؤں اور جرمانوں کا سامنا کرنا پڑے۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ ہم غیر ضروری طور پر اپنی ذاتی معلومات، تصاویر، ویڈیوز وغیرہ سوشل میڈیا پر ڈالنے سے بھی پرہیز کریں کیونکہ اس وقت جرائم پیشہ افراد ان چیزوں کو اپنے مذموم ارادوں کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ کسی بھی غیر قانونی، غیر اخلاقی اور ملکی و قومی مفاد کے منافی خبر کو آگے شیئر کرنے سے بھی اس جرم میں شریک ہو جاتے ہیں اور اس کی پاداش میں سزا جرمانے کے مستحق ٹھہرائے جاسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ اپنی موجودگی اور لوکیشن کے حوالے سے ضرورت سے زیادہ اطلاعات فراہم کرنا بھی ہمارے لئے نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔
تقریب کے آخر میں مہمان خصوصی ڈپٹی سپیکر گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی جناب جعفر اللہ خان نے سیمینار کی افادیت پر روشنی ڈالی اور سوشل میڈیا کے صحیح اور مثبت استعمال پر زور دیا۔ تقریب کے آغاز میں گلگت بلتستان پرائڈ ایسوسی ایشن کی محترمہ غزالہ یاسمین نے سیمینار کے اغراض و مقاصد اور میڈیا کے حوالے سے ابھرتے ہوئے چیلنجز کا تذکرہ کیا اور اس ضمن میں سیمینار کی اہمیت پر زور ڈالا۔
اس بات سے انکار کرنا ممکن نہیں کہ میڈیا اور خصوصاً سوشل میڈیا کا ہمارے زندگیوں کے ساتھ چولی دامن کا ساتھ ہے۔ لیکن یہ بات بھی اہم ہے کہ ایک غلط جز معاشرے میں منافرت، عدم استحکام ، جنگ و جدل اور نفرت و عناد کا باعث بن سکتی ہے۔ چنانچہ صحافت کے پاکیزہ پیشے سے منسلک افراد، اداروں کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی آزادی رائے کے بنیادی حق کو بروئے کار لاتے ہوئے درست اور صحیح خبر یں، تجزیئے، رپورٹس قارئین کے سامنے پیش کریں تاکہ انصاف، میرٹ اور برداشت پر مبنی معاشرے کی تشکیل ہوں۔ یہاں قارئین کے لئے بھی ضروری ہے کہ وہ سنسنی خیز خبروں کی بجائے صحیح خبروں کو ترجیح دیں۔

نوٹ: روزنامہ رہبر گلگت بلتستان اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ
[email protected]پر ای میل کردیجیے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں