359

گلگت بلتستان انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کی تعلیم اوراس کا فروغ. تحریر وائس چانسلرکے آئی یو عطاء اللہ شاہ

گلگت بلتستان انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کی تعلیم اوراس کا فروغ
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ آج کا دُور جدید انجینئرنگ ٹیکنالوجی کی روز افزاء ترقی کا مرہون منت ہے۔

اس جدید دور میں نت نئی ایجادات انسانی زندگی کے لئے مزید آسائش پیدا کررہی ہیں۔کسی بھی معاشر ے کی ترقی کے لئے ضروری ہے کہ وہاں علوم وفنون،سائنس،انجینئرنگ اور ٹیکنالوجی پر مبنی ایک متوازن علمی اور تحقیقی نظام موجود ہوں تاکہ معاشرہ ترقی کے تمام مراحل کامیابی سے طے کرتے ہوئے مُلکی اور بین الاقوامی سطح پر دیگر معاشروں کے ساتھ ایک متحمند مسابقت کے ذریعے بہتری کی طرف گامزن ہو۔گلگت بلتستان میں جامعہ قراقرم کا قیام تاریخی،علمی اور فکری لحاظ سے ایک بڑا کارنامہ سمجھا جاتاہے۔کیونکہ اس دانشگاہ کے قیا م سے ہزاروں طلبہ وطالبات کی علمی اور فکری تشنگی کی آبیاری کے لئے ایک نادر موقع فراہم ہوسکا۔پچھلے 15,16سالوں کے دوران اس مادرعلمی سے تقریباً12ہزار سے زائد طلباء فارغ اتحصیل ہوچکے ہیں۔آج جامعہ قراقرم اپنی نئی کُلیات اور 20شعبہ جات کے ذریعے بیک وقت 5ہزار سے زائد طلباء کی ذہنی اور فکری بالیدگی میں اپنا ایک فعال کردار ادا کررہاہے۔اس عرصہ کے دوران جامعہ قراقرم نے تقریباًتمام شعبوں میں سینکڑوں گریجویٹ پیدا کئے ہیں جواس وقت پورے مُلک میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔اس ضمن میں انجینئرنگ اور میڈیکل کے میدان میں جامعہ قراقرم نے ابتدائی طور پر زیادہ توجہ نہیں دی کیونکہ ابتدائی طور پر یونیورسٹی کے ساتھ محدود وسائل کی پیش نظر یہاں انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کی تعلیم کا آغاز یقیناایک مشکل کام تھا۔تاہم یونیورسٹی نے اپنے محدود وسائل کے باوجود کمپیوٹر سائنس،انفارمیشن ٹیکنالوجی اور سوفٹ ویئر انجینئرنگ میں شعبہ کمپیوٹر سائنس میں شعبہ کمپیوٹر سائنس کے زیر نگرانی کامیاب BSپروگرام شروع کئے جن میں سینکڑوں طلباء اس وقت ڈگریاں حاصل کرچُکے ہیں اور مختلف اداروں میں اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔
انجینئرنگ تعلیم کے حوالے سے ابتدائی طورپر کاوش بھی ہوئی اور مائننگ انجینئرنگ کا پروگرام 13/2012میں شروع بھی کیاگیاتاہم وسائل کی کمی کی وجہ سے انجینئرنگ ایجوکیشن کے لئے درکار وسائل جن میں فیکلٹی،لیب اور لیبارٹری کے آلات وغیر ہ شامل ہیں کی کمی کی وجہ سے اس میں کوئی واضح کامیابی حاصل نہیں ہوسکی۔بلکہ اس ضمن میں قراقرم یونیورسٹی کو ابتدائی طورپر پاکستان اُنجینئرنگ کونسل کی جانب سے کافی مشکلات کا سامنا بھی کرناپڑا کیونکہ اس پہلے پروگرام کی اجراء کے لئے در کار ذرائع اور وسائل کی کمی کی وجہ PEC نے اس کو باقاعدہ منظورنہیں کیا اور یہی وجہ ہے کہ آج بھی اس میں کوئی واضح کامیابی حاصل نہیں ہوسکی۔بلکہ اس ضمن میں قراقرم یونیورسٹی کو ابتدائی طور پر پاکستان انجینئرنگ کونسل کی جانب سے کافی مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا کیونکہ اس پہلے پروگرام کی اجراء کے لئے درکار ذرائع اور وسائل کی کمی کی وجہ PECنے اس کو باقاعدہ منظور نہیں کیا اور یہی وجہ ہے کہ آج بھی 14طلباء کی مائنگ انجینئرنگ کی ڈگری کی منظوری پاکستان انجینئرنگ کونسل سے حاصل نہیں ہوسکی۔2014-15میں انجینئرنگ ایجوکیشن کو مربُوط طریقے سے پاکستان انجینئرنگ کے زیر سایہ شروع کرانے کے لئے ایک میگا پراجیکٹ کی منظوری دی گئی۔جس کے دو حصے تھے۔ایک میں گلگت میں انجینئرنگ فیکلٹی کا قیام اور دُوسرے حصے میں سکردو کیمپس میں تعلیمی اور تحقیقی ضروریات پُوری کرنے کے لئے نئی عمارات اور لیبارٹری کا قیام تھا۔تاہم 2017ء میں صدارتی حکم نامے کے ذریعے کے آئی یو سکردُو کیمپس کو باقاعدہ یونیورسٹی آف بلتستان کا درجہ دیاگیااور گلگت میں انجینئرنگ فیکلٹی کے قیام کا منصوبہ بدستور جاری رکھا گیا۔راقم نے پچھلے سال شیخ الجامعہ کا قلمدان سنبھالنے کے فوراًبعد پاکستان انجینئرنگ کونسل کی اجازت سے باقاعدہ بی ایس مائینگ انجینئرنگ پروگرام کا اجراء کیاجوگلگت بلتستان میں انجینئرنگ ایجوکیشن کا قانونی آغاز سمجھاجاتاہے۔گلگت بلتستان میں انجینئرنگ فیکلٹی کے قیام کے حوالے سے 5سالہ منصوبہ بندی کی گئی جس کے رُو سے سال 2018-19کے دوران مائننگ انجینئرنگ کاباقاعدہ آغاز کیاگیا۔اس شعبے میں ابتدائی طور پر 16طلباء نے داخلہ لیاجس کو پروگرام کے لئے ایک کامیاب آغاز تصور کیاجاتاہے۔اس شعبے میں ابتدائی طور پر دوPhDکے علاوہ چار MSفیکلٹی لیئے گئے تاکہ تعلیم کے لئے درکار معیار کو روز اول سے قائم رکھ سکے۔اس شعبے کے سامنے چند اہم سیپشلائزیشن میں مائینگ انڈسٹری کو جدید خطوط پر استوار کرنا ہے۔یہاں قیمتی پتھروں کو زیادہ فعال طریقے سے کٹنگ،بالسٹنگ وغیرہ کراکے ان کو سرٹیفیکیشن کے ذریعے بین الاقوامی منڈیاں خصوصاًچین تک پہنچایاجاسکتاہے۔گلگت بلتستان کے معدنی ذخائر کی دریافت کرکے اُن کو یہاں کی تعمیرو ترقی میں استعمال کرانااور قدرتی آفات کے حوالے سے سیلائیڈنگ اور زلزلوں وغیرہ پر دوسرے شعبہ جات اور حکومتی اداروں کے ساتھ کام کرکے مائینگ انڈسٹری کویہاں کی معاشی اور سماجی ترقی میں مؤثر طریقے سے استعمال کرنا شامل ہیں۔مائنگ انجینئرنگ اور اس کی فیکلٹی اور سٹاف کے لئے ضروری ہے کہ وہ ان فیلڈز میں جدید رُجحانات کو سمجھتے ہوئے اپنے طلباء میں وہ صلاحتیں پیدا کریں جواُن کو مستقبل میں گلگت بلتستان اور پاکستان میں مائننگ انڈسٹری کے حوالے سے درپیش چیلنجز کا سامنا کرنے اور اُن کے لئے دیر پا قابل عمل حل تلاش کرنے میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔یہاں پر یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ پاکستان انجینئرنگ کونسل کی جدید طریقہ کار کے مطابق پاکستان واشنگٹن معاہدے کا رُکن بن گیاہے۔لہذا انجینئرنگ تعلیم کی منظوری کے لئے نتائج پر ممبنی نظام تعلیم Out Come Based Educationانجینئرنگ تعلیم کا ایک لازمی جزو ہے۔چنانچہ اس پروگرام میں شریک طلباء کی ایگریڈیشن واشنگٹن معاہدے کی رُو سے کی جائے گی۔جس کے لئے طلباء،فیکلٹی اور ستاف کو مسلسل محنت کرنی پڑے گی۔
انجینئرنگ فیکلٹی کے اگلے مرحلے میں سول انجینئرنگ کی اجراء کا پلان ہے۔جس میں سول انجینئرنگ کا قیام عمل میں لایاگیاہے اور اس سال بی ٹیک سول انجینئرنگ کے پروگرام کی تجویز ہے۔سول انجینئرنگ بی ایس پروگرام کے اجراء کے لئے بنیادی طورپراہم ضروریات فیکلٹی،لیبارٹریز اور دفاتر کے لئے درکار جگہ اور لیبارٹریز کے مشین اور آلات،انجینئرنگ فیکلٹی کے ابتدائی منصوبے میں دو شعبہ جات یعنی مائننگ انجینئرنگ اور سول انجینئرنگ تجویز کی گئی ہے۔ان کے لئے ابتدائی طورپر ایک بامقصد عمارت تعمیر کرنے کا آغاز بھی کیاگیاتاہم اراضی کے تنازعے کی وجہ سے منصوبہ تقریباًایک سال تاخیر کا شکار بھی ہوا۔تاہم علاقے کے اکابرین،حکومت کے آئی یو سٹاف اور سول اور ملٹری لیڈر شپ کے تعاون سے یہ تنازعہ احسن وبخوبی حل ہوگیااور فیکلٹی عمارت کی تعمیر دوبارہ شروع ہوگئی ہے۔توقع کی جاتی ہے کہ اگلے سال سول انجینئرنگ پروگرام کے آغاز تک بی ایس پروگرام کے لئے درکار جگہ اور لیبارٹریز اور سٹاف مہیا ہوسکے گا۔سول انجینئرنگ پروگرام کے سامنے چند اہم چیلنجز میں گلگت بلتستان میں اربن پلاننگ،لینڈیوز پلاننگ،سیوریج سسٹم ڈئزائن،سالیڈویسٹ منیجمنٹ،سلائیڈنگ کے روک تھام کے لئے حکمت عملی،زلزلوں سے محافظ انفراسٹرکچر کا ڈیزائن اور تعمیر وغیر ہ شامل ہیں۔چائینہ پاکستان اکنامک کوریڈور (CPEC)رُو سے مستقبل میں ہونے والی تعمیرات کے لئے درکار انسانی وسائل کی فراہمی میں بھی یہ شعبہ انتہائی اہم کردار ادا کرسکتاہے۔انجینئرنگ فیکلٹی کے قیام کے تیسرے مرحلے میں ہائیڈروپاور انجینئرنگ کا شعبہ قائم کرنے کا پلان ہے۔گلگت بلتستان میں آبی وسائل کی فراوانی،دریاؤں اور نالوں کی موجودگی یہاں پن بجلی کی پیدوار کے بے تحاشا مواقع فراہم کررہے ہیں۔اس وقت اس خطے میں کم از کم 50ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی گنجائش موجود ہے لیکن بدقسمتی سے قانونی مشکلات اور درکار انسانی وسائل کی کمی کی وجہ سے محض 150میگاواٹ بجلی پیداکی جارہی ہے۔اس ضمن میں پن بجلی کے چھوٹے منصوبوں اور دریاؤں پر پن بجلی کی پیداوار کے لئے منصوبے بنانے کی ضرورت ہے۔گلگت بلتستان فی الحال ملکی گرڈ سے بھی منسلک نہیں ہے جس کی وجہ سے یہاں فاضل بجلی کو ملک کے دیگر علاقون تک بھجوانا بھی ایک بڑا چینلج ہے۔اگر گلگت بلتستان کو نیشنل گرڈ سے منسلک کیاجائے اوریہاں پن بجلی کی پیدوار ی صلاحیت کو کُلی طورپر استعمال کیاجائے تو یقینی طور پر اس خطے سے غربت اور افلاس کو ختم کیاجاسکتاہے۔ان منصوبوں سے بھرپور فائدہ حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ یہاں ہائیڈرو پاور انجینئرنگ کے شعبے کوقائم کراکے اس کے لئے درکار انسانی وسائل کو فراہم کیاجائے۔چنانچہ 2020ء میں سول انجینئرنگ کے قیام کے بعد 2021ء میں ہائیڈرو پاور انجینئرنگ کا شعبہ قائم کرانے کا منصوبہ بھی زیر غور ہے۔اس شعبے کے سامنے جو چیلنجز رکھے جائیں گے اُن میں بجلی کے ترسیلی نظام کو جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے زیادہ فعال بنانا،سمالی ہائیڈلی پراجیکٹس کے لئے فزیبلٹی سٹڈیزکراکے اس خطے میں پن بجلی کے مواقع تلاش کرانا،چھوٹے ٹربائن کی ڈئزائننگ اور مینوفیکچرنگ،پن بجلی کے چھوٹے منصوبوں کے لئے درکار درپانی کی تلاش اور فراہمی۔متبادل اور قابل تجدید توانائی کے میدان میں جدید مواقع فراہم کرانااور مستقبل میں توانائی کے میدان میں گلگت بلتستان اور پورے ملک میں درپیش مسائل کوحل کرانا شامل ہیں۔
گلگت بلتستان چائینہ پاکستان اقتصادی راہداری کے دروازے کی حیثیت رکھتاہے اور مستقبل میں اس عظیم منصوبے کے ذریعے یہاں کے عوام کو زیادہ ترقی کے مواقع فراہم ہونے کا امکان بھی سب سے زیادہ ہے۔تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ ان مواقع سے بھرپور استفادہ حاصل کرنے کے لئے درکار انسانی وسائل بروقت فراہم کی جائے۔اس ضمن میں جامعہ قراقرم کا کردار انتہائی اہم ہے اور انجینئرنگ فیکلٹی اس مقصد کے حصول میں ایک کلیدی کردار ادا کرے گی۔اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی فیکلٹی کے قیام کے اس منصوبے اور اس کے ذریعے گلگت بلتستان میں صنعتی اور انجینئرنگ ٹیکنالوجی کا انقلاب لانے میں ہمارا حامی وناصر ہوں۔آمین آمین۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں