655

ہر ہاتھ ملانے والا دوست نہیں ہوتا‎،،،،، تحریر یاسر دانیال صابری۔

انسان کی فطرت ہے کہ وہ ہمیشہ جماعت کے ساتھ رہنا پسند کرتا ہے اور ہمیشہ دوسروں کے ساتھ کو ڈھونڈتا رہتا ہے۔ اس دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا آدمی ہوگا جو اکیلا رہ کر اپنی زندگی بسر کرنا پسند کرے۔ کیونکہ آدمی ایک سماجی حیوان ہے اور سماج میں رہنا پسند کرتا ہے۔ جماعت کے ساتھ نہ رہنا خلاف فطرت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسان اپنی پسند اور تیور کے مطابق اپنا ساتھی چن لیتا ہے۔

جب یہ بات معلوم ہوگئی کہ ہم لوگوں کو سماج کی ضرورت ہے تو یہ دیکھ لینا چاہیے کہ جس شخص کے ساتھ دوستی قائم کر کے زندگی گزاریں اس کے اخلاق اور آداب کیسے ہیں۔ کیونکہ ساتھیوں کے اخلاق کا اثر ہم لوگوں کے اخلاق پر پڑتا ہے۔ جو آدمی اچھے اور نیک دوستوں کی صحبت میں رہتا ہے اس کے عادات و اطوار بھی اچھے اور نیک ہوجاتے ہیں اور جو بروں کے ساتھ رہتا ہے اس کے اخلاق اور عادات برے ہوتے ہیں۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ ایسے دوستوں کا انتخاب کریں جو نیک ہوں اور بری عادت کے حامل نہ ہوں۔اور مناسب ہی یہی ہے کہ ہم اچھے اور نیک دوستوں کی صحبت اختیار کریں اور برے لوگوں کی صحبت سے پرہیز کریں۔
نیک صحبت انسان کی روحانی طاقت میں اضافہ کرتی ہے۔عقل و تمیز میں تیزی اور شعور میں سنجیدگی پیدا کرتی ہے اور قدر و منزلت میں بھی اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ گناہ اور جرم سے دور رکھتی ہے، دل میں خوشی اور مسرت پیدا کرتی ہے، روح کو سکون حاصل ہوتا ہے۔ طبیعت میں شگفتگی پیدا ہوتی ہے
 جسے اللہ کی دوستی نصیب ہو جائے تو اسے کسی دوسرے دوست کی طلب نہیں رہتی ۔پھر بھی اللہ کی رضا کے لئے اچھے دوست بنانا دنیا و آخرت میں فلاح کیلئے بہت اہمیت کے حامل ہیں۔
اچھے دوست کی اہمیت ۔۔
اچھے دوست ایسے ستاروں کی مانند ہیں جو نظروں سے اوجھل بھی ہو جائیں مگر دل کی کہکشاں میں جگمگاتے رہتے ہیں۔دوست کا مزاج کردار گفتار اپنی شخصیت میں بہت نمایاں ہوتا ہے ۔ایک بڑی مشہور انگریزی کہاوت ہے کہ
A man in known by the company he keeps.
کہ آدمی اپنی کمپنی ہی سے پہچانا جاتا ہے ۔ایک انگریزی دانشوربھو میبول آڈلیا ڈیج کا کہنا ہے کہ
A good person can make another person good.
گویا ہر سوسائٹی میں دوست اور اچھے دوست کو بڑی اہمیت حاصل ہے ۔ ،حضرت ابوہریرہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرمۖ نے ارشاد فرمایا
”قیامت کے روز تو اسی کے ساتھ ہو گا جس سے تو نے محبت کی”
حضرت ابوالداد فرماتے ہیں کہ ”دوست کی تعریف یہ ہے کہ
صیح مسلم مرنے کے بعد ورثاء کو ورثہ بانٹنے میں مشغول ہوںگے اور دوست دعائے مغفرت کر رہا ہوگا اور فکر مند ہو کر مرنے والے کے ساتھ اللہ تعالی کے معاملات کرتا ہے۔ حدیث میں ہے کہ زندہ لوگوں کی دعا مرنے والوں کی قبر میں نور کا پہاڑ بن کر پہنچتی ہے۔ مردہ کو بتایا جاتا ہے کہ دعا کا یہ ہدیہ فلاں شخص نے بھیجا ہے اور مردہ اس ہدیہ سے شاداں و فرحاں ہوتا ہے”۔
حضرت علی کا قول ہے کہ
”اچھا دوست ہاتھ اور آنکھ” کی طرح ہوتا ہے جب ہاتھ کو درد ہوتا ہے تو آنکھ روتی ہے اور جب آنکھ روتی ہے تو ہاتھ آنسوں صاف کرتا ہے”۔
حضرت علی نے فرمایا کہ
” اچھا دوست چاہے کتنا برا بن جائے کبھی اس سے دوستی مت توڑو کیوں کہ پانی چاہے کتنا بھی گندہ ہو جائے آگ بجھانے کے کام آتا ہے”۔اسلئے تقاضا ہے کہ اپنے دوست کی چھوٹی چھوٹی خامیوں پر قطع تعلق نہیں کرنا چاہیے بلکہ اصلاح کی کوشش کرنی چاہیے۔
انسان کی پہچان صحبت سے ہوتی ہے۔ اگر وہ بروں کی صحبت میں رہتا ہے تو ہم لوگ اس کو برا سمجھتے ہیں۔ اسی طرح اچھی صحبت میں رہنے والوں کو اچھا سمجھتے ہیں۔ اگر اتفاق سے اچھے لوگ بری صحبت میں پڑ جائیں تو انہیں مناسب ہے کہ اپنی عادات ایسی رکھیں کہ بروں کی بری عادات اور اوصاف کا اثر ان پر نہ پڑے۔
ہمیشہ اچھے کام کرتے رہیں اور بروں کو آہستہ آہستہ سمجھاتے رہیں۔ نیک صحبت کی عادت بچوں کو بچپن ہی سے ڈالنی چاہیے۔ بچوں کا دل اثر پذیر ہوتا ہے ان پر دوسروں کا اثر فوراً ہی ہونے لگتا ہے۔اس لئے ہمیں چاہئے کہ ہمیشہ اچھی صحبت اختیار کریں اور زندگی کو خوشگوار طریقے سے گزاریں۔
نیک دوست اور بہترین دوست……..
دوست کے معنی ہیں رفیق، ساتھی۔دو دوست ایک قالب اور دو جان ہوتے ہیں عربی میں ان کو خلیل کہتے ہیں۔ جن دو شخصوں میں بے حد موافقت ہو ان کو حبیب کہتے ہیں۔ انسان سماج میں تنہا بھی رہ سکتا ہے لیکن تنہا آدمی کے لیے زندگی گزارنا تھوڑا سا مشکل ہو جاتا ہے۔
عام طور پر ہم عمر لوگوں میں دوستی پیدا ہونے کا زیادہ امکان رہتا ہے۔ دو آدمیوں میں کوئی مناسبت نہ ہو تو دوستی پیدا نہیں ہوسکتی۔ لڑکے اور بوڑھے میں، عالم اور جاھل میں، توانگر اور مفلس میں،دنیا دار اور درویش میں دوستی ہونا ناممکن ہے۔جن کی طبیعت کا میلان ایک ہی کام کی طرف ہوتا ہے ان میں فطرتاً دوستی پیدا ہوتی ہے۔
طبیعت کے اعتقاد کی یک سوئی دوستی کو قائم اور زیادہ مضبوط بناتی ہے۔ غیر مناسب عمر، مختلف فطرت والے لوگوں کی دوستی عموماً ناپائیدار اور محض غرض مندانہ ہوتی ہے۔ اس جہان میں دوست صادق کا پایا جانا بہت مشکل ہے اور جس نے اسے پایا وہ خوش نصیب ہے۔داناؤں کا قول ہے کہ جو خوشی، غم ،افلاس اور زندگی موت میں ساتھ دے وہی دراصل سچا دوست ہے۔
سچا دوست اپنے دوست کی کامیابی کے لئے ہمیشہ کوشاں رہتا ہے۔ وہ اپنے دوست سے کسی خدمت کا عوض نہیں لینا چاہتا اور نہ اپنا کوئی مطلب حاصل کرنا چاہتا ہے۔ وہ اپنے دوست کو خراب راستے سے روک کر اچھے راستے پر لگاتا ہے۔ اس کی برائیوں پر وہ پردہ ڈالتا ہے اور اس کے عمدہ اوصاف کا اظہار سب کے سامنے کرتا ہے اور دل و جان سے اس کی بھلائی میں مشغول رہتا ہے۔ وہ غم کی حالت میں دوست کو تسلی اور تشفی دیتا ہے۔ اچھے کاموں کا شوق دلاتا ہے۔ وہ اپنے دوست کے لئے اپنی جان قربان کرنے کو تیار رہتا ہے۔
 ماڈرن دوست مفاد پرست بن گئے ہیں احسان فواموش ہے .حقیقی دوستی نام کی دوستی ہے.لالچ پرست بن چکے ہیں . منافقت اور حسدی بن چکے ہیں اور جھوٹے دوست کے سبب سے مختلف قسم کی مصیبتیں پیدا ہوتی ہیں۔ وہ اپنے دوست کی برائیاں اصلاح کرنے کی بجائے انہیں ساری دنیا میں مشہور کردیتا ہے۔ وہ اپنے دوست کے نزدیک باتیں بناتا ہے اور پیٹھ پیچھے اس کی شکایت کرتا ہے۔آرام میں اس کے ساتھ رہتا ہے اور تکلیف میں اس کا ساتھ چھوڑ دیتا ہے۔ جب تک اس سے کوئی غرض رہتی ہے تب تک محبت کو ظاہر کرتا ہے لیکن جب مطلب حاصل ہوجاتا ہے تو اس سے الگ ہو جاتا ہے۔اگر موقع ہاتھ آ جائے تو اپنی غرض حاصل کرنے کے لئے اپنے دوست کی جان تک لے لیتا ہے۔ ایسے دوست سے ہمیشہ ہوشیار رہنا چاہیے۔
ہم اکثر اوقات اپنے ماں باپ اور بھائی بہن وغیرہ سے بعض باتوں میں رائے لینے میں پس و پیش کرتے ہیں۔ مگر ہچکچاہٹ دوست سے نہیں ہوتی۔ جب اپنے والدین اور بھائی بہن کی محبت کے باوجود ہمیں ان سے راز دل کہنے میں تامل ہوتا ہے تو ہمیں لازم ہے کہ اس زندگی کے سفر کو طے کرنے کے لئے کسی سچے اور پرخلوص دوست کی تلاش کریں اور اس کی محبت میں زندگی آرام اور اطمینان سے گزاریں
دوستی نبھانے کی چیز ہے دکھانے کی نہیں ,البتہ دوستی نبھانے کے لیے دوستی کا ثبوت بھی دکھانا پڑتا ہے۔ ایک انسان جب مشکلات کا شکار ہو جاتا ہے تو اس وقت دوست کا سہارا نہ ملے تو کیسی دوستی، اس وقت دوست کی زبان سے نکلےہوئے ہر لفظ سے دوستی کی وضاحت ہو جاتی ہے، اچھی طرح سے معلوم ہو جاتا ہے کہ دوستی کتنی گہری اور سچائی پر مبنی ہے۔ گویا دوستی کا دوسرا نام فدا کاری ہے، سچی دوستی کے لیے ہر جائز چیز فدا کرنے کا نام دوستی ہے۔ دوست کی دوستی قائم ودائم رہے اس کے لیے چند چیزیں زیر نظر رکھنی ضروری ہیں۔
سب سے پہلے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ دوستی کس سے کرنی چاہیئے، اس کے عادات و اطوار کیسے ہیں، وہ امیر ہے یا غریب ،یہ دیکھنے کی ضرورت نہیں البتہ وہ اخلاق و کردار کے لحاظ سے کیسا ہے اس کا معلوم ہونا ضروری ہے۔
دوستی کے لیے دوسری چیز یہ ضروری ہے کہ دوستی کیوں اور کس لئے؟ اگر دوستی بس صرف نام کے لئے ہے تو دوستی یہ دوستی نہیں، اور اگر دوستی ایک دوسرے کا ہر حال میں ساتھ نبھانے اور اس میں مقصد صرف الحبا للہ ہے تو دوستی کا یہ رشتہ قائم ہو سکتا ہے، اور اس کے برخلاف ہو تو دوستی کی یہ شکل اصل میں دوستی نہیں ہے، بلکہ عنقریب ظاہر ہونے والا دھوکہ ہے جس سے پرہیز ضروری ہے۔
دوستی میں پیار اور ایک دوسرے کا احترام ضروری ہے اگر یہ نہ ہوں تو اس دوستی سے پناہ مانگنی چاہئے۔غرض دوستی نبھانے، پیار ومحبت سے پیش آنے، ایک دوسرے پر فدا ہونے، ایک دوسرے کے لئے ہر چیز قربان کر دینے اور وقت آنے پر دوست کی مدد کرنے میں ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں