367

آخر کب تماشا ختم ہوگا؟

حالیہ سیاست سے بیزاری اپنی جگہ مگر اس کھیل سے اپنی ازلی محبت بھی حقیقت ہے۔

آج کل کے حالات مگر سمجھ سے باہر ہیں۔ ملکی حالات میں بہتری تو خیر کیسے ہوگی، اس کی فی الحال کوئی امید بھی نہیں، مگر اس قدر تیزی سے تنزلی کا سفر کبھی دیکھا نہ تھا۔

ابھی معاشرہ ناکام پولیس ریفارمز، معیشت کی ابتری، پارلیمان کی ناکامی اور انتقامی احتساب کی تاب لا ہی رہا تھا کہ کوالالمپور سمٹ نامی ایک اور ناکامی نونہالان انقلاب کا راستہ ناپے کھڑی تھی۔ حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا کہ یہاں بھی جس ڈھٹائی سے نالائقی کا ڈھول بین الاقوامی سطح پر بجایا گیا، اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔

یوں کہیے کہ ’سعودی عرب میں پاکستان کے سفیر‘ نے وزیرِاعظم پاکستان کو ملائیشیا کا دورہ کرنے سے روک دیا۔ کیوں کہ ملائیشیا میں نیا اسلامی بلاک بنانے اور اس میں ایران کی شمولیت اور سعودیہ کی بے دخلی کی بات چل رہی تھی۔ ہماری معیشت چونکہ ہمیں اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ ہم مشکل وقت میں ڈالر اور تیل فراہم کرنے والے اپنے ’دوست ملک‘ کی نافرمانی کرسکیں۔ لہٰذا ہم نے مہاتیر کو فون کرکے اپنی بے بسی کا اظہار کردیا۔ جس کا پول ترک صدر رجب طیب اردگان نے اپنی میڈیا سے گفتگو میں کھول دیا۔ وہ ببانگِ دہل کہتے ہیں کہ سعودیہ پاکستان پر دباؤ ڈالتا ہے۔ پاکستان کو اس سمٹ میں شرکت نہ کرنے کےلیے دھمکیاں دی گئیں، جس میں ستائیس لاکھ پاکستانیوں کی سعودیہ سے بے دخلی

اور تیل کی فراہمی روکنا شامل تھا۔

فارن آفس سے یہ اعلامیہ جاری کیا گیا، جس میں کہا گیا کہ پاکستان کو فارن پالیسی کے لحاظ سے عالمی سطح پر سبکی کا سامنا کرنے پر فارن آفس کو ذمے دار ٹھہرانا غلط ہے۔ کیوں کہ فارن آفس نے اس سمٹ کے پیشِ نظر جو سفارشات مرتب کی تھیں، انہیں وزیرِاعظم آفس کی جانب سے یکسر نظر انداز کردیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ وزیرِاعظم نے فارن آفس کو اعتماد میں لیے بغیر ہی اس سمٹ میں شرکت کی یقین دہانی کرادی، اور اس بات پر دھیان نہ دیا کہ اس سمٹ کے جو ٹارگٹس ہیں اْن کو دیکھتے ہوئے سعودی عرب اور ان کے حامی ممالک سے ردِعمل آئے گا۔ فارن آفس کا یہ بھی کہنا تھا کہ وزیرِاعظم کو اس سمٹ کے حوالے سے ابتدا میں ہی ایک لائن نہیں لینی چاہیے تھی، ایک موقف نہیں اپنانا چاہیے تھا۔ بلکہ تمام اسٹیک ہولڈرز کو اکٹھا کرکے نہایت محتاط قدم اٹھانا چاہیے تھا تاکہ ہم ایک بہتر پوزیشن پر ایک مثبت انداز سے اس کانفرنس میں شرکت سے معذرت کرتے۔

کرپٹ قیادت کے ہاتھوں ملک کی بدحالی پر خان صاحب کہتے تھے کہ جب ان کے ہاتھوں میں ملک کی باگ ڈور ہوگی تو ترقی کا سفر طے ہوگا۔ کیوں کہ ساری گیم ہی بے ایمانی کی ہے۔ اب مگر ان کی ایمانداری کے باوجود ارض پاک پر چھائے بے یقینی کے بادلوں کا جواب یہ ملتا ہے کہ تحریک انصاف کی ایماندار حکومت اس لیے ناکام ہے کیوں کہ ماضی کی حکومتیں کرپٹ تھیں۔ بس یوں سمجھیے کہ آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے۔ آرمی چیف کی ایکسٹینشن کا معاملہ ہو، تو نالائقی، مشرف کی سزا کا معاملہ ہو، تو کم علمی، سفارت کاری کا محاذ ہو، تو کم عقلی، معیشت کا باب ہو، تو جلد بازی۔ آخر کو عوام کے پاس بھی رونے کو آنسو ختم ہورہے ہیں۔ معاملات اگر ایسے ہی چلتے رہے، تو بہت کچھ چلنا بند ہوجائے گا۔

وقت کے ساتھ ہمارے خان صاحب بھی اس نظام کو پیارے ہوگئے۔ وہ جس نظام کو بدلنے کا مصمم ارادہ لے کر آئے تھے، اسی نظام کے ہاتھوں پارٹی کو تار تار کر بیٹھے۔ ہمارے کسی قسم کی کرپشن نہ برداشت کرنے والے خان صاحب اپنی بی آر ٹی کی تحقیقات پر ہونٹ سیے دکھائی دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ پشاور ہائی کورٹ کا ایف آئی اے سے تحقیقات کرانے کے حکم پر بھی کے پی کے حکومت سپریم کورٹ چلی گئی، تاکہ ایف آئی اے کو تحقیقات کرانے سے روکا جائے۔ مگر خان صاحب کی شفافیت کے دعوے دور کہیں خاموش رہے۔ ہاں مگر سابق ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن کو بلا کر یہ ضرور کہا جاتا ہے کہ سعودی عرب کا نظام دیکھیں جہاں کسی کی اتنی جرأت نہیں ہوتی ہے کہ محمد بن سلمان کی حکومت کے خلاف کوئی بات بھی کرسکے۔ انہیں یہ کہہ کر یہاں کے میڈیا پر زور دینے کو کہا جاتا ہے جہاں ’’سارا سارا دن میری حکومت کے خلاف باتیں کی جاتی ہیں‘‘۔

بیوروکریسی میں سیاسی مداخلت کا علم تھامنے والے اور اداروں کو سیاسی دباؤ سے آزاد کرنے والے خان صاحب پھر اسی بشیر میمن کو خواجہ آصف کی گرفتاری کا آرڈر دیتے ہیں کہ اس شخص پر آرٹیکل چھ کے تحت مقدمہ قائم کیا جائے کہ یہ کیسے پاکستان کا وزیرِ خارجہ ہوکر دبئی کا اقامہ لے کر نوکری کررہا تھا۔ حکم کی تعمیل نہ ہونے پر اسی بشیر میمن کو نوکری سے برخاست کرکے واجد ضیاء کو لاکر بٹھا دیا جاتا ہے۔

آج کل یوں کہیے کہ مین اسٹریم میڈیا پر چلنے والی خبروں سے بیزاری کے بعد وقت گزاری کےلیے سوشل میڈیا کا رخ کرنا پڑتا ہے، مگر وہاں بھی عجب تماشا برپا ہے۔ سوشل میڈیا پر بیروزگار نوجوانوں کی قلیل تنخواہوں پر ایک ایسی گالم گلوچ بریگیڈ بھرتی کی گئی ہے جسے جب چاہا اور جس پر چاہا آزاد چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اس کے ہاتھوں مخالفین کو غداری، ملک دشمنی اور لفافہ خوری کے سرٹیفکیٹ بانٹے جاتے ہیں۔ تضحیک اور توہین کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور کبھی کبھار تو کپتان صاحب سے ان کو الٹا لٹکانے کے فرمائشی پروگرام کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے۔ آئے روز وقت گزاری کےلیے کوئی نہ کوئی پھلجڑی چھوڑی جاتی ہے۔ کبھی خان صاحب سے بڑھتی ہوئی مہنگائی کا اعلان کردیا جاتا ہے تو کبھی گیس اور بجلی کے بحران کا نوٹس خان صاحب کے نام سے منسوب کرکے ترسے ہوئے عوام کے جذبات کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ کبھی بیرونِ ملک اربوں ڈالر کی رقوم کی خیالی واپسی پر شادیانے بجائے جاتے ہیں، تو کبھی اسلامی صدارتی نظام لاکر خان صاحب کو خلیفہ وقت نامزد کردیا جاتا ہے۔

سوال یہ نہیں کہ ایسا کیوں ہورہا ہے؟ سوال یہ کہ آخر کب تک ایسا چلتا رہے گا۔ سوال یہ بھی ہے کہ آخر کب تک یہ ملک شخصیات کے سحر میں جکڑا رہے گا؟ سوال تو یہ بھی ہے کہ کب تک ہمارا قومی مفاد ’ناگزیر‘ شخصیات کی ’نااہلی‘ کی بھینٹ چڑھے گا؟ کب تک ہم اگلے ماہ، اگلے سال اور اگلے انتخابات کے مدار میں تیرتے رہیں گے؟ کب تک یہ ملک محض وعدوں اور دعووں کے حصار میں قید رہے گا؟ یہ بھی ایک سوال ہے کہ اس نظام کا حاصل کیا ہے اور یہ کہ پردہ کب گرے گا، کب تماشا ختم ہوگا؟ میرے معبود آخر کب تماشا ختم ہوگا؟

نوٹ: روزنامہ رھبر  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

واصب امداد

واصب امداد

بلاگر میڈیا کے طالب علم ہونے کے ساتھ ریڈیو براڈ کاسٹر ہیں۔ ملکی سیاست اور انٹرنیشنل افیئرز میں دلچسپی کے ساتھ لکھنے کا بھی شوق ہے۔ ان سے ٹویٹر آئی

ڈی wasib25@ پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں