330

بس شادی ہی مقصد ہے؟تحریر.. راضیہ سید

عطا الحق قاسمی امریکا گئے تو ایک لڑکی نے ان سے حیرانی سے پوچھا ’’کیا سچ مچ آپ کے ملک میں شادیاں لڑکا لڑکی کی مرضی کے بغیر ان کے والدین کی مرضی سے ہوتی ہیں اور لڑکا لڑکی ایک دوسرے کی صورت سے بھی آشنا نہیں ہوتے؟‘‘

عطا الحق قاسمی نے کہا کہ ’’بات صرف ایک حد تک درست ہے، یعنی شادیاں طے دلہا دلہن کے والدین ہی کرتے ہیں مگر طے کرنے سے پہلے دلہا دلہن کی رائے ضرور لیتے ہیں۔‘‘

’’ انکار کردیں تو کیا ہوتا ہے؟‘‘ لڑکی نے اشتیاق سے پوچھا۔

’’پھر بھی کردیتے ہیں۔‘‘ عطا الحق قاسمی نے ٹھنڈی سانس بھر کر جواب دیا۔

معروف دانشور نے ہمارے معاشرے کی بالکل درست معنوں میں عکاسی کرنے کی کوشش کی ہے۔ اگرچہ شادی نہ صرف ایک اہم فریضہ ہے بلکہ اعلیٰ اخلاقی اور معاشرتی قدروں کی پاسداری کی بنیاد بھی ہے۔ شادی کو اہمیت اس لیے دی گئی کہ اس سے ایک نسل پروان چڑھ سکے اور باقاعدہ ایک خاندان کی بنیاد رکھی جاسکے۔

نہ صرف اسلام بلکہ دیگر مذاہب میں بھی شادی جیسے بندھن کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے، تاکہ دو افراد کے باہم اشتراک سے معاشرے کو برائیوں سے محفوظ بنایا جاسکے۔

انسان کی زندگی میں بلاشبہ شادی کی بہت اہمیت ہے۔ ہمارے بچپن میں ہی ہمارے ماں باپ بہن بھائی ہماری شادی کے خواب دیکھتے ہیں اور جوان ہونے پر ہم خود کچھ سپنے بننے لگتے ہیں۔

اس سب تمہید کا مقصد شادی کی اہمیت اور اس کی حمایت میں بولنا نہیں اور نہ ہی اس خاندانی نظام کو برا بھلا کہنا ہے، لیکن اگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ شادی ہی تمام مسائل کا حل ہے تو یہ ضرور غلط ہے۔

شادی کرنا بالکل غلط نہیں لیکن اس کے طریقہ کار میں اب بہت سی الجھنیں اور برائیاں جنم لے رہی ہیں۔ لڑکے اور لڑکی دونوں کو ہی شادی نہ کرنے پر معاشرے میں ناپسندیدہ نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے۔ مختلف قسم کے جملے سننا روز کا معمول بن جاتا ہے۔ آپ نے شادی کی نہیں یا ہوئی نہیں؟ آپ کو تو نوکری میں پروموشن اور تنخواہ میں اضافے سے لگاؤ ہے، اسی لیے آپ اپنی زندگی کے اہم ترین فیصلے کرنے سے کترا رہے ہیں۔ آپ کو گھر جانے کی کیوں جلدی ہے؟ آپ کے کون سا چھوٹے چھوٹے بچے رو رہے ہیں؟ بس اب کر بھی لیں شادی، کیا انکل بننے کا ارادہ ہے؟

لڑکیوں کی زندگی تو اس بات سے ہی اجیرن کردی جاتی ہے کہ دیکھو اب تمہارے لیے کوئی شہزادہ تو آنے سے رہا، لہٰذا خوابوں کے محل سے باہر نکل کر حقیقی دنیا سے نظریں ملاؤ۔ جب لڑکی کی عمر زیادہ ہوجائے تو اسے ’جو اور جیسا ہے‘ کی بنیاد پر شادی کرنے پر مجبور کردیا جاتا ہے۔ جبکہ دوسری طرف لڑکے کو پڑھی لکھی اور حور لڑکی سے شادی کرنے کےلیے مائنڈ سیٹ تبدیل کرنے پر آمادہ کیا جاتا ہے۔

سچ پوچھیے تو بہت سے والدین بہتر سے بہتر کی تلاش اور بچوں کی کمائی سے آنے والی آمدنی کے ہاتھ سے نکل جانے کے خوف سے بروقت فیصلہ نہیں لیتے۔

لڑکیوں کو بہت زیادہ پڑھا لکھا دیا جاتا ہے اور جب ان کے مطابق رشتے نہیں ملتے تو کسی سے بھی نباہ کرنے پر مجبور کردیا جاتا ہے۔ اور بالفرض کوئی لڑکی یا لڑکا کسی کو پسند بھی کرلے تو ذات پات کی فرسودہ زنجیریں ان کے قدموں میں ڈال دی جاتی ہیں اور ان سے قطع تعلق کرلیا جاتا ہے۔

ہمارے معاشرے میں بیٹی کو بوجھ اب بھی سمجھا جاتا ہے اور یہ باتیں میں اکیسویں صدی کی ہی کررہی ہوں۔ جن گھرانوں میں والدین نہ ہوں اور شادی شدہ بہن بھائی ہوں اور بالخصوص بہنوئی اور نندیں ہوں، وہاں اکیلی لڑکی پر طنز کے تیر برسائے جاتے اور جلد از جلد اس سے جان چھڑانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہی حال کنوارے لڑکوں کا بھی ہے کہ ہم بھابھیاں کب تک اس کی روٹیاں پکائیں؟ اس کےلیے بیوی ڈھونڈو۔

لیکن شادی جلدی کرنے کے چکر میں لڑکے اور لڑکی کے درمیان ایک رسمی سی ملاقات کو ان کے درمیان انڈراسٹینڈنگ سمجھ لیا جاتا ہے اور جلدی شادی کا شور مچ جاتا ہے۔ یہ بھی سننے کو ملتا ہے کہ آپ انگلینڈ نہیں رہ رہے کہ ہر دن ملاقاتیں کرتے پھریں، یہ پاکستان ہے۔

اب یہ سب عوامل بھی شادی سے لگاؤ پیدا کرنے کے بجائے اس سے منحرف کرنے کی ایک کوشش ہے۔ جبکہ اس کے برعکس منگنی اس لیے کی جاتی ہے کہ فریقین کم ازکم ایک دوسرے کو پرکھ لیں۔ اب ذہنی ہم آہنگی سے مراد یہ نہیں کہ آپ روز پارکس میں تفریح کی غرض سے نکل جائیں یا زیادہ سے زیادہ ہوٹلنگ کریں، کیونکہ اعتدال ضروری ہے۔ تاہم کبھی کبھار ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہوتا، جس میں آپ حدود و قیود کا خیال بھی رکھ سکیں۔

بہت سے گھرانوں میں لڑکیوں کی شادی بس ایک بوجھ سمجھ کر کی جاتی ہے۔ یعنی اب یہ اپنے گھر کی ہوگئی اپنے مسائل خود حل کرے۔ انھیں اب اپنے خاندان کو پریشان کرنے کا کوئی حق نہیں۔ یعنی لڑکی کی شادی کی مثال بالکل اس طرح ہے کہ جیسے مردے کو قبر میں دفنا کر سب واپس آجائیں اور اس کے بعد مردہ جانے اور اس کا خدا جانے۔ بالکل اسی طرح لڑکی جانے اور اس کا سسرال۔

ذہنی ہم آہنگی کا نہ ہونا اور بے جوڑ عجلت میں کیے گئے رشتے نباہ کا باعث نہیں بنتے۔ لڑکا یا لڑکیاں اگر معاشرتی طور پر والدین کی دی گئی ڈھیل یا بری صحبت کی وجہ سے خراب ہونے لگیں تو ان کی فوری شادی طے کردی جاتی ہے اور اس کےلیے ہمیشہ اچھے خاندانوں کا انتخاب کیا جاتا ہے، تاکہ وہ بے راہ رو لڑکے یا لڑکی کو سدھار لیں۔ اب یہاں یہ نہیں سوچا جاتا کہ جو لڑکے یا لڑکیاں ماں باپ کی ہدایت سے نہیں مانتے، وہ اتنے عرصے بعد شریک حیات کے منع کرنے پر کیسے خود کو سدھار لیں گے؟

انہی وجوہات کی بنا پر بہت سے نوجوان لڑکے لڑکیاں شادی کی ذمے داریوں سے بھاگنے لگے ہیں۔ وہ اس اچھے طرز زندگی کو اپنے لیے وبال جان سمجھتے ہوئے شادی سے ہی منحرف ہوچکے ہیں۔ جبکہ سوسائٹی کےلیے قابل قبول نوجوان ایسے ہیں جو شادی کرکے کسی بھی طرح اپنا گھر بسا رہے ہیں۔ اب چاہے وہ اپنی شادیوں سے خوش ہیں یا ناخوش یہ ایک الگ موضوع ہے۔

اس سب بحث کا مقصد یہی ہے کہ معاشرے میں ایب نارملیٹی کی شرح کو کم کرنے کےلیے ہمارے بڑے اپنا کردار ادا کریں۔ جس کےلیے انھیں نئی نسل کو شادی کے بندھن کو قبول کرنے سے متعلق مسائل کے حل کی طرف توجہ دینا ہوگی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں