363

کس کی مرضی؟ ایک تجویز،،،، تحریر..

ایک تو ہوتا ہے مسئلے کا واقعتاً موجود ہونا اور ایک ہوتا ہے خوامخواہ کا مسئلہ بنادینا۔ تو فی الحال عورت مارچ اور ’میرا جسم میری مرضی‘ کے حوالے سے جو ایک ہیجان سا برپا ہے، وہ ایسی ہی بات ہے کہ ایک خوامخواہ کے نان ایشو کو زبردستی جیسے ایشو بنادیا گیا ہے۔ اور آٹھ مارچ کو یہ سب تماشا اپنے عروج پر اس وقت پہنچا جب بدمزگی کے چند واقعات پیش آئے۔ جیسے پتھراؤ وغیرہ اور اس سے یقیناً اس مسئلے کو اور ہوا ملی۔

ماروی سرمد اور خلیل الرحمان کے درمیان ہونے والی میڈیا ٹاک میں جو اعلیٰ ترین تہذیب و تمدن کا معاملہ دونوں طرف سے دیکھنے کو ملا اور جیسے وہ کہتے ہیں ناں کہ باتوں سے خوشبو آئے، تو ہر دو اطراف سے ایسی خوشبو مہکی کہ بہت سوں کا تو سر ہی چکرا گیا اور جس کا اثر ابھی تک بھی نہیں گیا۔

دراصل وہ جو کچھ سنجیدہ لکھنے اور بولنے والوں نے کہا ہے ناں کہ پاکستانی سوسائٹی یا ہمارا معاشرہ تقسیم در تقسیم اور تبدیلی در تبدیلی کے مرحلے سے گزر رہا ہے وہ بالکل ٹھیک بات ہے۔ یہاں جو ہورہا ہے وہ عجیب وغریب سا ہی ہورہا ہے، جیسے کوئی یوم محبت یا ویلنٹائن ڈے منا رہا ہے کہ نقالی کا خوگر ہے۔ کسی کو خطرہ ہے کہ اس کی مشرقی تہذیب یہ دن منانے سے گویا منہدم ہوجائے گی اور وہ اسی لیے یوم حیا کا علم لے کر نکل پڑتا ہے۔ کوئی ’عورت مارچ‘ کر رہا ہے اور کوئی اس کو روکنے کا اعلان کر رہا ہے اور جواباً حیا مارچ نکالا جارہا ہے۔

معاملہ یہاں آن پہنچا کہ ٹی وی اسکرین میدانِ جنگ میں بدل گئی ہے، اور ایک دوسرے سے ایک سو اسی درجے کے زاویے پر مخالف دو مکاتب فکر جیسے دو انتہاؤں پر پہنچے ہوئے ہیں۔ ایک گروہ کے نزدیک جیسے آج انسانی حقوق اور آزادی اظہار کے اعتبار سے سب سے بڑا مسئلہ ہے تو بس یہی ہے۔ دوسرے گروہ کے لحاظ سے یہ سب بےحیائی اور بے دینی کا بڑا مظہر ہے، جبکہ حقیقت ان دونوں انتہاؤں کے کہیں درمیان میں موجود سسک رہی ہے۔

نہ جانے کیوں ہم مکالمے سے بھاگنے لگے ہیں اور جب معاشروں میں سے مہذب طریقے سے، تہذیب و شائستگی سے اور علمی انداز سے مکالمے کی روایت کمزور ہونے لگتی ہے یا ختم ہوجاتی ہے تو پھر جبر کا ماحول بنتا ہے اور معاشرہ ایک گھٹن، تناؤ اور فرسودگی کا شکار ہونے لگتا ہے۔ ہم ویسے ہی جذباتی لوگ ہیں، جن میں اب دوسرے کا نقطہ نظر تحمل سے سننے اور سمجھنے اور سلیقے سے جواب دینے کا رجحان مزید کمزور سے کمزور تر ہوتا جارہا ہے اور قاضی بن کر فیصلہ سنانے میں ید طولیٰ حاصل ہوتا جارہا ہے۔

دیکھیں اس بات کو کوئی بھی سلیم العقل تسلیم کرے گا کہ کسی بھی معاملے میں فیصلہ کرنے کےلیے کوئی کسوٹی، کوئی معیار بنایا جانا ضروری ہوتا ہے۔ کہیں یہ معیار قانون ہوتا ہے، کہیں آئین، کہیں مذہبی احکام تو کہیں تہذیبی روایات۔ بالا ذکر کردہ سارے قضیے میں اگر مذہب کو معیار بنائیں تو اس صنف نازک کو دوسرے ادیان کا تو نہیں کہہ سکتے لیکن جو حقوق دین اسلام نے دیے، وہ کہیں اور، کسی چارٹر، کسی آئین میں نہیں دیے گئے۔ اور یاد رہے کہ یہ سب حقوق اس زمانے میں دیے گئے جب عورتوں کی باقاعدہ منڈیاں لگا کرتی تھیں اور جیسے آج ہم دیکھ بھال کر اور ٹٹول ٹٹول کر قربانی کے جانوروں کا انتخاب اور خرید و فروخت کرتے ہیں، ویسے ہی صنف نازک کی خرید و فروخت ہوا کرتی تھی۔ اسی زمانے میں جب بیٹی کا پیدا ہونا شرمندگی اور گالی سمجھا جاتا تھا، اسی زمانے میں جب انہیں زندہ درگور کردیا جاتا تھا، اسلام نے عورتوں کے مقام کا از سر نو تعین کیا۔ ان کے حقوق و فرائض کا ایسا بے مثال نظام دیا کہ جس سے بہتر کوئی بھی نظام کہیں بھی ملنا ممکن نہیں۔

اب اگر عورت مارچ کے شرکا اپنے حقوق، جیسے وراثت میں حصہ وغیرہ اور دیگر حقوق، دینی تعبیر کی حدود میں رہتے ہوئے مانگ رہے ہیں اور ان کے حصول کےلیے جدوجہد کررہے ہیں تو بڑی اچھی بات ہے اور قابل تحسین بھی ہے، لیکن اگر اس مارچ اور تحریک کا مقصد مادر پدر آزادی کا حصول ہے اور مغرب کے آزاد تمدن والا ماحول بنانا ہے تو یہ اس خطے کی مذہبی، معاشرتی، تہذیبی اور اخلاقی روایات کے خلاف ہے۔ اور ایسے مقصد کو نرم سے نرم الفاظ میں شرمناک ہی کہا جاسکتا ہے۔

اب یہ باتیں مہذب انداز میں مکالمہ کرکے بھی طے کی جاسکتی ہیں کہ مذہبی طبقہ یا علما کے خیال میں تحریکِ نسواں کی اس قسم کی تمام تحاریک کا ہدف مسلمانوں کا خاندانی نظام ہے۔ وہی نظام جو مغربی تہذیب اور معاشرت سے تقریباً ختم ہوچکا ہے۔ عورت کی آزادی کے نام پر ایک ایسی معاشرت پیدا کرنے کی کوشش ہورہی ہے، جس کا مقصد عورت کو اس کے تہذیبی و مذہبی احاطے سے نکال کر سرِ بازار لا کھڑا کرنا ہے۔ چراغ خانہ کو شمع محفل بنانا ہے۔ جس کے نتیجے میں وہ ایک جنسِ بازار بن جائے گی۔ اہلِ مذہب عورت کے حقوق کے نہیں، اس سوچ کے خلاف ہیں جو پس منظر میں کارفرما ہے۔ جبکہ دوسرے نقطہ نظر کے حامیوں کا موقف ہے کہ معاشرے میں جب بھی خواتین کے حقوق کی بات ہوتی ہے، اہلِ مذہب ان لوگوں کے ساتھ کھڑے ہوجاتے ہیں جو عورت کا ہر طرح سے استحصال کرتے ہیں۔ نسوانی حقوق کے غاصب اس دینی تعبیر کو اپنا ہتھیار بنالیتے ہیں، جو ایک پدرسری سماج اور نظام کی عطا ہے۔ علما ان کو یہ ہتھیار فراہم کرتے ہیں۔ وہ عورت کی انفرادیت اور سماجی حیثیت کو قبول نہیں کرتے۔ اسے مرد کے تابع محض ایک مہمل مخلوق سمجھتے ہیں۔

اب یہ بحث کہ کون صحیح ہے کون غلط؟ تو اس طرح کے بڑے مباحث کو سمیٹنے کا درست طریقہ یقیناً کم از کم وہ نہیں ہوسکتا جو آج کل ٹی وی اسکرین پر دیکھا جارہا ہے، بلکہ جیسے مختلف مواقع اور معاملات پر سیمینار اور مباحثہ جات منعقد کیے جاتے ہیں۔ ایسے ہی اس معاملے پر بھی ایک کھلا مباحثہ، مکالمہ یا مناظرہ منعقد کرایا جائے، جہاں دونوں نقطہ ہائے نظر کے شناور اور ماہرین آئیں اور آکر اپنی اپنی بات پیش کریں اور فیصلہ سننے اور دیکھنے والوں پر چھوڑ دیں۔ تو کیا یہ ایک بہتر طریقہ نہیں ہوگا؟ ذرا غور فرمائیے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں