663

اساتذہ کی تعلیم و تربیت کی اہمیت،، تحریر شاہد حسین شگری

جس طرح آپریشن کرنے کیلئے ڈاکٹر، عمارت بنانے کیلئے انجینئر، کوئی کاروبار چلانے یاکمپنی میں کام کرنے کیلئے بزنس ایڈمنسٹریشن کی ڈگری ہونا ضروری ہے، اسی طرح ہمارے مستقبل کے معماروں کو پڑھانے کیلئے ایک استاد کا اپنے مضمون کے ساتھ ساتھ تدریس کے شعبے میں ماہر ہونا بھی لازمی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ٹیچر ایجوکیشن میں بہت سی خامیاں موجودہیں جنہیں دور کرنے کی ضرورت ہےلیکن کوئی بھی شخص استاد بننا چاہتا ہو تو اسکے پاس کم از کم ٹیچر ایجوکیشن کی ڈگری ہونی چاہیے یعنی ایک استاد کو بی۔ ایڈ یا ایم۔ ایڈ ضرور ہونا چاہیے۔ہمارے تعلیمی نظام میں موجود بہت سی مثالوں سے میری بات کو رد کیا جا سکتا ہے کیونکہ کئی تعلیمی ادارے ایسے ہیں جہاں پر اساتذہ ٹیچر ایجوکیشن کی ڈگری کے بغیر بھی بہت اچھا پڑھا رہے ہیں۔

لیکن ایجوکیشن کا طالب علم ہونے کے ناطے میں یہ سمجھتا ہوں کہ استاد کو نہ صرف اپنے کورس پر مکمل مہارت ہونی چاہیے بلکہ یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ کورس کس طرح پڑھانا ہے،تدریس کے کون سے طریقے استعمال کرنےہیں اور ان طریقوں کے استعمال کے کیا فوائد و نقصان ہیں ۔ اپنے کورس میں ماہر استاد بچوں کا سلیبس تو جلدی مکمل کروا دے گا لیکن ہم یہ اندازہ نہیں لگا سکتے کہ اس جلدی میں بچے نے سیکھا کیا ہے۔آج کل ہمارے اردگرد اسکولوں اور اکیڈمیز میں یہی کچھ ہو رہا ہے جس کی سب سے بڑی وجہ اساتذہ کاتدریس کے طریقوں سےلاعلمی ہے۔

استاد کا لفظ اپنے اندر بہت وسیع معنی رکھتا ہے۔ استاد کی ذمہ داری صرف اسکول میں جا کر بچوں کو کتابوں سے دیکھ کر پڑھانا نہیں بلکہ ایک استاد کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس کے پاس کیا وسائل ہیں اور ان وسائل کو کس طرح استعما ل کرنا ہے۔ آج کے استاد کو جدید ٹیکنالوجی کا استعمال آنا چاہیے اور کسی سہولت کی عدم دستیابی میں بھی پڑھانے کاسلیقہ آنا چاہیے۔ طریقہِ تدریس میں تبدیلی سے بچوں کے سیکھنے کے معیار پر پڑنے والے اثرات سے واقف استاد ہی ایک اچھا استاد کہا جاسکتا ہے۔
موجودہ تعلیمی صورتحال میں بہتری مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں
اس کے علاوہ،استاد کیلئے بچوں کی نفسیات کو سمجھنا بھی بہت ضروری ہے، استاد کو علم ہونا چاہیے کہ بچے کی توجہ سبق پرکس طرح مرکوز کروائی جاسکتی ہےیا وہ کونسی وجوہات ہیں جن کی بناء پر بچہ سبق میں دلچسپی نہیں لے رہا ۔ استاد کی رہنمائی اور کونسلنگ کے ذریعے نالائق سمجھے جانے والے بچے کا اعتماد بحال کر کے اسےقابل بچوں کی صف میں شامل کیا جاسکتا ہے۔ایک اچھے ٹیچر کی خصوصیات
ہر شعبہ زندگی میں افراد کی روز افزوں ضرورت کو پورا کرنے کے لیے بنیادی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری معلم پر عائد ہوتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بچے کا پہلا مدرسہ ماں کی گود ہوتی ہے جہاں وہ مختلف اشیا اور ان کے ناموں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنا سیکھتا ہے۔ لیکن بعد کی زندگی میں اسے ان لوگوں کی ضرورت پڑتی ہے جو تعلیم و تربیت کے مختلف مراحل سے گزار کر اسے عملی زندگی میں قدم رکھنا سیکھاتے ہیں۔ کیونکہ بہرحال والدین میں اتنی خصوصیات نہیں ہوتیں کہ وہ اس کو دنیا کی تیز رفتار دوڑ میں شامل ہونا سکھا سکیں لیکن ہاں وہ اس کی تعلیم کے لیے وسائل ضرور مہیا کر سکتے ہیں۔ ہمارے ہاں اساتذہ کا معیار کئی باتوں پر رکھا جاتا ہے بالخصوص قابلیت اس کے بعد تجربہ اور پھر ان کا کردار۔ ٹیچنگ کا شعبہ آج کے دور میں کافی پر کشش ہو چکا ہے کیونکہ جب کسی اور کوئی اور روز گار نہیں مل پاتا تو وہ تدریس کا شعبہ اپنا لیتا ہے۔ لہذا آئیے دیکھتے ہیں کہ وہ کون سی خوبیاں ہیں جو ایک اچھے استاد میں ہونی چاہیے۔
دوستانہ اور موزوں
ایک ٹیچر کی جو سب پہلی خوبی ہے وہ یہ ہے کہ وہ اپنے طلباء کے ساتھ دوستانہ ہو۔ ایسا استاد جو اپنے طلباء کا بہترین معاون ہو۔ اگر استاد دوستانہ ہو گا اور طلباء کے لیے ایک بہترین معاون ہو گا تو طلباء اس سے اپنے مسائل بھی شیر کریں گے اور کوئی بات کرنے سے بھی نہیں ہچکچائیں گے۔ دوسری طرف اگر استاد اپنا رویہ دوستانہ نہیں رکھے گا تو کلاس میں موجود طلباء بھی ڈرے رہیں گے اور یکسوئی کے ساتھ پڑھ بھی نہیں سکیں گے اور نہ ہی تعلیمی مسائل موزوں طریقے سے استاد کے ساتھ شئیر کر سکیں گے۔ بہرحال یہ طلباء کا حق بنتا ہے کہ ان کو ایک اچھا تعلیمی ماحول دیا جائے اور انہیں دوستانہ ماحول میں پڑھایا جائے کیونکہ تعلیم بہرحال ان کے مستقبل کی سیڑھی ہے جس پر چڑھ کر وہ کامیابی کے زینے طے کے سکتے ہیں۔
اچھی شخصیت
ایک استاد کو ایک جاذب نظر اور متاثر کر دینے والی شخصیت کا حامل ہونا چاہیے۔ اس کو ہر وقت جاذب نظر دکھنا چاہیے۔ اس کو اپنے آپ کو ایسے انداز میں اپنے طلباء کے سامنے پیش کرنا چاہیے کہ پہلی ہی نظر میں اس کے طلباء اس کے گرویدہ ہو جائیں۔ اس کی شخصیت میں ایک پیشہ وارانہ رعب ہو لیکن ساتھ ہی ساتھ وہ اپنے طلباء کا دوست، ہمدرد بھی ہو۔

ایک استاد کو پیپر بنانے سے لے کر مارکنگ تک کے سسٹم سے آگاہ ہونا چاہیے تا کہ وہ اپنے طلباء کی کارگردگی کا بہتر طریقے سے اندازہ لگا سکے۔ یہاں پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ پیپر کی تیاری یا چیکنگ کیلئے تو علیحدہ ادارہ موجود ہےلیکن سالانہ پیپرز کےعلاوہ بھی روزانہ، ہفتہ وار، ماہانہ اور سہ ماہی ٹیسٹ بھی ہوتے ہیں اس لئے ایک ٹیچر میں اتنی اہلیت ہونی چاہیے کہ وہ کلاس میں ہونے والے ٹیسٹ کی بنیاد پر یہ جانچ لے کہ اسکے طالب علموں نے کتنا سیکھا اور بہتری کی کتنی گنجائش موجود ہے ۔

معیاری تدریس کیلئے فلسفہِ تعلیم اور تاریخ کےعلم پراستاد کی دسترس ضروری ہےورنہ وہ ادب ،سائنس یا ریاضی کے مضامین توپڑھا لے گا لیکن بچوں کو یہ مضامین سمجھ میں آئے یا نہیں اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ ہمارے ملک میں اتنے وسائل نہیں کہ کونسلنگ، کلاس روم مینجمنٹ اور امتحانات کے لئے الگ الگ شعبے بنائے جائیں اس لئے اگر استاد خود پیپرز کی تیاری اور یگر تدریسی فرائض سرانجام دے گا تو وہ اپنے طالب علموں کو بہتر طور سے سمجھ سکے گا اور جہاں کوتاہیاں ہوں گی انہیں خود دور کر سکے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں