989

کورونا کے بعد کی تیاری

آج کی اس کورونائی دنیا میں ہم میں سے اکثریت کےلیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ کس طرح اپنے آپ کو اور اپنے خاندان کو کورونا کی وبا سے بھی بچائیں اور اپنے روزگار کے اسباب کو بھی محفوظ بنائیں۔ دوسری جانب پالیسی ساز، تھنک ٹینکس اور ارباب اختیار ایسی پالیسیوں کی تلاش میں ہیں جن کی مدد سے وبا پر قابو پایا جائے اور اس کے معیشت پر پڑنے والے منفی اثرات کو بھی مزید بڑھنے سے روکا جائے۔

اس وقت دنیا بھر میں کورونا کے متاثرین کی تعداد تیس لاکھ سے زائد ہوچکی ہے۔ اس وبا کی وجہ سے سوا دو لاکھ سے زائد زندگیوں کے چراغ گل ہوچکے ہیں۔ اس وبا کی ایک اور بھیانک سچائی یہ ہے کہ پہلے سے بے روزگاری سے لڑتی اس دنیا میں اس سال کے وسط تک 305 ملین افراد اپنے روزگار سے ہاتھ دھو بیٹھے ہوں گے۔ یہ صورت حال اس بات کی متقاضی ہے کہ حکومتیں اس وبا کی روک تھام اور بڑھتی ہوئی بے روزگاری کےلیے باہمی اختلافات کو بھلا دیں۔ قبل اس کے مزید دیر ہوجائے، اقوام عالم کی طرف سے ایک متفقہ ردعمل بہت ضروری ہے۔

انشااللہ کووڈ-19 کے خلاف یہ جنگ جلد یا بادیر جیتی ہی جائے گی لیکن اس فتح کے بعد چیلنجز کی ایک طویل فہرست دنیا کی منتظر ہوگی۔ ان نئے چیلنجز کا مقابلہ کسی ایک قوم کےلیے تنہا کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ لہٰذا کورونا کے بعد کی دنیا کےلیے سب کو ابھی سے تیاری کرنا ہوگی۔ ہمیں نئی دنیا کے نئے انداز قبول کرنے کےلیے ابھی سے تیار رہنا ہوگا۔

اس ساری صورت حال میں چین دنیا میں ایک واحد ایسا ملک ہے جہاں وائرس پر قابو پانے کے بعد صورت حال معمول پر واپس آچکی ہے۔ ابتدا ہی سے، چین کے اعلیٰ رہنما شی جن پنگ نے اس وبا کی روک تھام اور کنٹرول کو ’’عوام کی جنگ‘‘ کے طور پر بیان کیا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ لوگوں کی زندگی اور صحت کو پہلی ترجیح دی جانی چاہیے، اور اس جنگ کو جیتنے کےلیے عوام پر انحصار کرنا ہوگا۔ اس اچانک وبا کے سامنے، صفائی کے کارکنوں، کوریئر جوان سے لے کر طبی عملے اور دیگر شعبوں میں کام کرنے والے تمام لوگوں نے محنت اور خاموشی سے اپنی خدمات انجام دیں، جس کی وجہ سے وبا پر قابو پانے کےلیے ایک طاقتور قوت وجود میں آئی۔ چینی صدر نے غیر ملکی رہنماؤں کے ساتھ گفتگو میں اس بات پر زور دیا کہ چینی عوام ہی ہیں جنہوں نے ہمیں اس وبا پر قابو پانے کےلیے طاقت اور اعتماد دیا، عوام ہی ہیرو ہیں۔

انسداد وبا کی لڑائی میں کوئی تماشائی نہیں ہے۔ 1.4 بلین چینی باشندے اپنی اپنی حیثیت میں اس وبا سے لڑنے کےلیے سخت کوشش کر رہے ہیں، اور ہر ایک عام چینی کی جدوجہد کو سمجھنے کے بعد ہی بین الاقوامی برادری کو واضح طور پر اندازہ ہوسکتا ہے کہ چین نے اس جنگ کو کس طرح جیتا۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے ڈائریکٹر جنرل کے سینئر مشیر بروس ایلورڈ نے جذبات کے ساتھ کہا ہے کہ ’’رضاکاروں نے صف اول میں خدمات سرانجام دے کر نہ صرف چین بلکہ پوری دنیا کو وائرس سے محفوظ بنایا۔‘‘

آج کی دنیا میں ہمارے پاس سپر کمپیوٹرز، بگ ڈیٹا، مصنوعی ذہانت اور شماریاتی تجزیوں کے سافٹ وئیر موجود ہیں لیکن ہم کتنے بے بس ہیں کہ اپنی تمام تر طاقت کے دعوؤں اور عملی ثبوتوں کے باوجود اس سوال کا جواب دینے سے قاصر ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آنے والی دنیا کا تعین اب ہماری خواہشات پر نہیں بلکہ ’’وائرس‘‘ کی جانب سے چھوڑے جانے والے چیلنجز پر ہوگا۔

ایک چیز یقینی ہے کہ اس ساری صورت حال میں سب سے زیادہ نقصان میں غریب اور کم آمدن والے طبقات ہوں گے۔ لہٰذا دنیا کے صاحب اختیار لوگوں کو سب سے زیادہ ان ہی کی فکر کرنا ہوگی۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے خون پسینے سے آج دنیا کو اس طاقتور مقام پر پہنچایا ہے۔ اس صدی کے شروع میں سامنے آنے والی عالمی کساد بازاری کو انہی لوگوں نے اپنی محنت سے انجام دیا تھا۔ اگر ہم نے مل کر انہیں بچا لیا تو یہ بھیانک خواب جلد ختم ہوجائے گا۔

حالیہ وبا نے دنیا بھر کے کھوکھلے دعوؤں کی قلعی کھول دی ہے۔ اس وبا نے ہمارے نظام میں موجود ناانصافیوں، کمزوریوں اور کوتاہیوں کو سب کے سامنےآشکار کردیا ہے۔ آج کی دنیا میں امیر کی دولت کا شاید ایک صفر کم ہوا ہو لیکن غریب کی زندگی صفر ہوگئی ہے۔

خدا نہ کرے کورونا کے بعد بھوک کی وبا دنیا کو آلے۔ اس وقت کورونا نے امریکا اور افریقہ کو ایک صف میں لا کھڑا کیا ہے۔ آج دنیا کا امیر ترین خطہ بھی اتنا ہی بے بس ہے جتنا غریب ترین خطہ۔ آج مزدور کورونا کا شکار ہے تو وزیراعظم بھی اس وائرس کا شکار ہے۔ ہمیں وائرس کے اس سبق کو مثبت انداز میں لینا چاہیے اور دنیا سے عدم مساوات کی جڑوں کو اکھاڑ پھینکا ہوگا، کیوں کہ اگر اب ہم نے کمزور لوگوں کو نہ بچایا تو ہم کس پر حکمرانی کریں گے۔

نوٹ:  نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں