163

گلگت بلتستان میں کینسر اسپتال کا تعمیراتی کام مکمل یکم اکتوبر سے علا ج معالجے کا سلسلہ شروع ہوگا، فوکل پرسن

منصوبے کو 48 مہینے میں مکمل کرنے کا ہدف رکھا گیا تھا مگر یہ منصوبہ مقررہ مدت سے چھ ماہ قبل مکمل کر کے پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کی تحویل میں دیا گیا ہے
ہسپتال میں صحت سہولت کارڈ رکھنے والے مریضوں کا مفت علاج ہو گا جبکہ دیگر لوگوں کا رعایتی بینادوں علاج کیا جائے گا، ڈاکٹر حاجت خان کی رہبر سے گفتگو


گلگت(جنرل رپورٹر)گلگت بلتستان میں   کینسر اسپتال کا تعمیراتی کام مکمل،اسپتال میں جلد مرض کی تشخیص اور علاج معالجہ کا سلسلہ شروع ہو گا۔ اس منصوبے پر سابق وزیر اعلی حافظ حفیظ الرحمان کے دور میں 4 جنوری 2018 میں باقاعدہ کام شروع کیا گیا تھا اور اس منصوبے کو 48 مہینے میں مکمل کرنے کا ہدف رکھا گیا تھا مگر یہ منصوبہ مقررہ مدت سے چھ ماہ قبل مکمل کر کے پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کی تحویل میں دیا گیا ہے۔ فوکل پرسن گلگت بلتستان کینسر ہسپتال ڈاکٹر حاجت خان نے روزنامہ رہبر سے گفتگو کرتے ہو? کہا کہ اس ہسپتال میں صحت سہولت کارڈ رکھنے والے مریضوں کا مفت علاج ہو گا جبکہ دیگر لوگوں کا رعایتی بینادوں علاج کیا جا? گا ہسپتال رواں ماہ کے آخر تک فعال ہو گا جس سے اس مرض میں مبتلا افراد کو ملک کے دیگر علاقوں میں علاج کے دوران پیش آنے والے مسائل کا خاتمہ ہو گا۔ بی ایل ٹی بی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر انجینئر صابر حسین نے کہا کہ اسپتال کا تعمیراتی کام عالمی معیار کے مطابق مکمل کیا گیا ہے  اسپتال میں سینٹرل ایئرکنڈیشن سسٹم بھی  نصب کیا گیا ہے جبکہ ہسپتال میں کشادہ وارڈز اور دیگر کمرے تعمیر کئے گ?ے ہیں   واضح رہے کہ گلگت بلتستان کی معروف تعمیراتی کمپنی بی ایل ٹی بی نے پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کی زیر نگرانی اس منصوبے کو عالمی معیار کے مطابق مکمل کیا ہے اس منصوبے پر دو ارب 56 کروڑ روپے لاگت آئی ہے  یہ ہسپتال ملک کا انیسواں سٹیٹ آف دی آرٹ کینسر ہسپتال یے جہاں میموگرافی،گیما کیمرہ،اور کوبالٹ جیسی انتہائی مہنگی اور جدید مشینیں نصب کی گئی ہیں۔ اس ہسپتال میں جدید مشینوں کے زریعے  برین ٹیومر سمیت کینسر کے مرض کی تشخیص  اور علاج کی سہولت میسئر ہو گیاس اسپتال میں گلگت بلتستان کی عوام کو کینسر جیسے موذی مرض کا ابتدائی سطح پر ہی علاج کرانے کی سہولت میسئر ہو گی۔ گلگت بلتستان میں کینسر کے علاج  اور اس کی تشخیص کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے صوبے میں اس مرض میں مبتلا افراد کو مرض کی تشخیص اور علاج معالجے کے لیے ملک کے دیگر حصوں کی طرف جانا پڑتا ہیجس کی وجہ سے لوگوں کو بھاری اخراجات اٹھانے پڑتے ہیں اور بعض مریضوں ناقابل برداشت اخراجات کی وجہ سے موت کو گلے لگانے پر مجبور ہوتے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں