154

صوبائی حکومت کو عوامی مسائل کا ادراک نہیں، گلگت بلتستان میں غریب اور بے روزگاری میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، امجد ایڈوؤکیٹ

تعلیم، صحت سمیت تمام شعبہ جات زبوں حالی کا شکار ہے، کے آئی یو میں 200طلباء کا ایک جگہ پر اکھٹا ہو کر آپس میں بات چیت کرنا کونسا جرم ہے، جی بی میں حالات تیزی سے خراب ہو رہے ہیں، اپوزیشن لیڈر
یونیورسٹی انتظامیہ کی غلطی کی وجہ سے نابالغ بچوں پر ایم پی او اور دہشت گردی کی دفعات لگا کر جیل بھیج دیا گیا ہے، چھو ٹے بچوں پر ایم پی او لگانے کا قانون ہی نہیں ہے.

گلگت(جنرل رپورٹر)اپوزیشن لیڈر امجد ایڈوکیٹ نے انے چیمبر میں میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا ہے کہ پچھلے ایک ماہ سے 18 سال سے کم عمر بچوں کو مختلف ہیلے بہانوں سے جیل میں ڈالا جارہا ہے کے آئی یو کو ایک بار پھر بند کردیا گیا ہے 200 طلبا کے ایک جگہ جمع ہوکر آپس میں بات چیت کرنا کونسا جرم ہیجتنا عرصہ قراقرم یونیورسٹی بند رہے اتنے ہی عرصے کے لیے یونیورسٹی انتظامیہ کی تنخواہیں بھی بند ہونی چاہیئے تاکہ یونیورسٹی میں آئندہ کو مسئلہ کبھی بھی پیدا نہیں ہوگا کے آئی یو کے وی سی اور انتظامیہ کے آئی یو کے مسلے کو مذہبی سمجھ رہی ہیں گلگت بلتستان میں حالات تیزی سے خرابی کی طرف جارہے ہے طلبا کے اوپر اے ٹی اے اور ایم پی او کے دفعات لگائے جارہے ہے نااہل لوگوں کو مینڈیٹ دیا گیا ہے پورے نظام میں حکومت کا موجود نہیں ہونا لمحہ فکریہ ہے اس حکومت کی تمام ترپالیسیز این جی اوز بنا رہی ہے حکومت لوگوں کو امن نہیں دے سکتی صحت اور تعلیم نہیں دے سکتی بس سرکاری تنخواہیں پہ وزراء گزارہ کر رہے ہیں حکومت کہیں نظر نہیں آ رہی عوام کے مسائل میں دن بہ دن بڑھ رہے ہیں قائد حزب اختلاف و پی پی پی کے صوبائی صدر امجد حسین ایڈوکیٹ نے اپنے چیمبر میں میڈیا کو بریفنگ دیتے ہو? مزید کہا کہ گلگت بلتستان میں عوامی مسائل سننے کے لئے کوئی حکومتی عہدیدار موجود نہیں ہے عوام تکلیف کا شکار ہیں حکومت کا سربراہ اسلام آباد میں رہتا ہے۔ کسی بھی سیکٹر میں کوئی بیانیہ نہیں ہے۔ تعلیم کا سیکٹر ہو یا صحت کا شعبہ‘ ہر طرف زبو حالی ہے۔ کرونا وائرس کی خطر ناک لہر کے دوران بہت سے افراد زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں بیمار افراد کے لئے علاج معالجے کی سہولیات کی فراہمی تو دور کی بات ہے سوگوار خاندانوں کے گھروں میں تعزیت تک نہیں کی گئی ہے۔ گلگت بلتستان میں گزشتہ ڈیڑھ سال سے ترقیاتی عمل جمود کا شکار ہے فلڈکے دوران بھی کہیں پر حکومت نظر نہیں آئی۔ انہوں نے انتہائی افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یوم دفاع پاکستان کے موقع پر پورے ملک میں تقریبات منعقد ہوئیں مگر گلگت بلتستان واحد صوبہ تھا جہافیں پر سرکاری سطح پر کوئی تقریب منعقد نہیں ہوئی۔ حکومت کو نہ تو دفاع وطن کے ایام کا پتہ ہے اور نہ ہی علاقے کے عوام کے مسائل کا ادرا ک ہے عوام مہنگائی کے دلدل میں پس رہے ہیں بے روزگاری کا طوفان ہے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ ایک ماہ سے 18سال سے عم عمر بچوں کو جیل بھیجا جارہا ہے۔ کبھی سوشل میڈیا کا نام دیا جارہا ہے کبھی کوئی اور الزام لگایا جاتا ہے۔ یونیورسٹی کو ایک بار پھر بند کر دیا گیا ہے دو سو طلبہ ایک جگہ جمع ہو گئے تھے امن و امان کا مسئلہ بنا کر بند کر دیا گیا یونیورسٹی انتظامیہ ایشوز پیدا کرنے کی بجائے مسائل کو حل کرے۔ لہذا یونیورسٹی بند ہو تو یونیورسٹی انتظامیہ اور تمام تدریسی عملے کی تنخواہیں بھی بند کی جائیں۔ کیونکہ یونیورسٹی بند ہوتی ہے تو سٹاف اسلام آباد میں عیا شیاں کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان میں دو یونیورسٹیز موجود ہیں وائس چانسلرز کی تعیناتی کا اختیار صوبائی حکومت کے پاس نہیں ہے یونیورسٹیز کی سینٹ اور سیلیکٹ کمیٹیوں میں ملک کے مختلف شہروں کے افراد موجود ہیں جو اپنے اپنے رشتہ داروں کو تر جیح دیتے ہیں جبکہ گلگت بلتستان قابل پی ایچ ڈیز بے روزگار پھر رہے ہیں مقامی افراد کی سی ویز تک کو جمع نہیں کیا جاتا ہے جو کہ افسوس کا مقام ہے۔انہوں نے کہا کہ گلگت‘ غواڑی اور استور میں مسائل پیدا ہوئے اور داریل کے عوام مطالبات لے کر سڑکوں پر ہیں کوئی بھی طبقہ رازی نہیں ہے۔ حکومت کی کسی بھی سیکٹر میں پراگریس نظر نہیں آرہی ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ گلگت بلتستان میں حکومت نام کی کوئی چیز نہیں ہے انہوں نے کہا کہ یونیورسٹی انتظامیہ کی غلطی کی وجہ سے نابالغ بچوں پر ایم پی او اور دہشت گردی کی دفعات لگا کر جیل بھیج دیا گیا ہے۔ چھو ٹے بچوں پر ایم پی او لگانے کا قانون ہی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ علاقے کے حالات نہیں سنبھال سکتے ہیں تو نا اہل حکومت کو مسلط کیو ں کیا گیا ہے۔ غر بت اور بے روزگاری کے شدید مسائل ہیں ایسے میں وقت میں حکومت کا موجود نہ ہونا المیہ کو جنم دے گا علاقے میں ہم آہنگی کے قیام کی زمہ داری حکومت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ 9 ماہ سے اسمبلی نہیں چل رہی ہے۔ ایسے میں ڈمی کونسل کے لئے کیوں کر وائے جارہے ہیں کونسل کو نہ قانون سازی کے اختیارات ہیں نہ ہی ترقیاتی منصوبوں کے۔ صرف اور صرف ممبران کو مراعات فراہم کرنے کے لئے کونسل کے انتخابات کر وائے جارہے ہیں امجد حسین ایڈو کیٹ نے کہا کہ کونسل انتخابات کے خلاف عدالتوں سے رجو ع کرنا چاہتے تھے مگر جی بی کی عدالتیں کینگرو کورٹس بن گئی ہیں حکومت کی نا اہلی اور بے حسی کی وجہ سے عدالتی نظام مفلوج ہو کر رہ گیا ہے۔ کونسل الیکشن کے خلاف اپیل کرنے کے لئے عدالت ہی موجود نہیں ہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں