165

ریٹس ریواٸس کٸے جاۓ کابینہ میں نٸے ریٹ منظور کرنے کی بجاۓ پھر سےکمیٹی کے سپرد کرنا باعث تشویش ہے، کنٹریکٹرز ایسوسی ایشن گلگت بلتستان

گلگت(جنرل رپورٹر)کنٹریکٹر ایسوسی ایشن گلگت بلتستان کے رہنماوں نے گگت سنٹرل پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوۓ کہا ہے کہ 2012 کے ریٹ پر 2021 میں کام کرنا ناممکن ہے کیونکہ 500 گنا مہنگاٸی بڑھ چکی ہے لہذا ریٹس ریواٸس کٸے جاۓ کابینہ میں نٸے ریٹ منظور کرنے کی بجاۓ پھر سےکمیٹی کے سپرد کرنا باعث تشویش ہے کمیٹی در کمیٹی بنا کر ٹرخایا جارہا ہے جب تک کمیٹی کا فیصلہ نہیں آجاتا ہے نئے پی سی 1 روکے جائیں اور جلد از جلدنٸے ریٹس کی منظوری دی جاۓ ہمارے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے اگر حقوق احتجاج سے ہی ملتے ہیں تو جی بی کے ٹھیکیدار تاریخی احتجاج کریں گے پھر نہ کوئی ٹینڈر ہوگا نہ ہی کوئی اینٹ لگے گی انہوں نے مزید کہا کہ گلگت بلتستان میں تعمیرات کی انڈسٹری تباہی کے دھانے پر پہنچ گئی ہیں اگر یہی حالات رہے تو گلگت بلتستان کا کوئی بھی ٹھیکے دار دیوالیہ ہونے سے نہیں بچ سکتا ظالم ترین سوتیلی ماں سے بڑھ کر سلوک اس وقت گلگت بلتستان کے ٹھیکیداروں کے ساتھ ہورہا ہے گلگت بلتستان کے ٹھیکیدار 2012 کے شیڈول پر کام کر رہے ہیں جو کہ سراسر ظلم و زیادتی ناانصافی اور بربریت ہے جو ظلم و زیادتی اور ناانصافی گلگت بلتتسان کے ٹھیکیداروں کے ساتھ ہو رہا ہے اس کی کوئی مثال نہیں ملتی گلگت بلتستان کی تعمیر و ترقی کے لیے بننے والے پی سی 1 میں کیا ریٹس چل رہے ہیں چھوٹی سی مثال آپ لوگوں کے سامنے پیش کرنا چاہتے ہیں پچھلے دنوں بسین پولیس اسٹیشن کا ٹینڈر رکھا گیا گلگت بلتستان کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ تمام ٹھیکیداروں نے اس ٹینڈر کا بائیکاٹ کیا بائیکاٹ کیوں نہ کرتے کیونکہ مزکورہ ٹینڈر میں سٹیل ریٹ 32فیصد سیمنٹ کے ریٹس 45فیصد تھے 32 فیصد سٹیل ریٹ کا مطلب 133 روپے جب کہ مارکیٹ میں اس وقت 195 فی کلو ملتا ہے سیمنٹ 45 فیصد کا مطلب 625 کی بوری جو کی اس وقت مارکیٹ میں 950 روپے میں ملتی ہے جی بی کے ٹھیکیداروں کےساتھ گھناونا مذاق ہو رہا ہے اور اس مذاق کے آنے والے دنوں میں سنگین نتائج برآمد ہوں گے گلگت بلتستان بیمار منصوبوں کا قبرستان بن جائے گا اگر اب بھی تمام پی سی 1 کو روک کر بروقت اقدامات نہ اٹھائے گئے اور موجودہ مارکیٹ کے تحت ریٹس نہ دیئے گئے تو یہ بیماری لاعلاج بیماری ہوگئی پھر اس کا علاج کسی صورت ممکن نہیں ہوگا کابینہ اجلاس کے ایجنڈے میں نٸے ریٹس کے تعین کے معاملہ کو رکھا گیا تھا جس سے ٹھیکیداروں کو سو فیصد امید پیدا ہوئی تھی کہ ٹھیکیداروں کا دیرینہ مطالبہ حل ہوگا لیکن صد افسوس کہ کابینہ نے اس مسئلے کو حل کرنے کی بجائے مزید پیچدہ کردیا کمیٹی کے سپرد کرنا سمجھ سے بالاتر ہے کمیٹی میں موجود وزراء کو یہ نہیں پتہ کہ سریا 133 کا اور سیمنٹ کی بوری 625 روپے کی نہیں ملتی ہمیں کابینہ کے فیصلے پر شدید افسوس سے وزیراعلی کی محنت پر پانی پھیر دیا ہم وزیراعلی کی ذاتی کوششوں کے معترف ہیں وہ پراجیکٹ جن کی لاگت سے ایک کروڑ پچاس لاکھ سے کم ہے جو پیپرا قوانین کے مطابق اسکلیشن کے حق دار نہیں ان تمام کو مارکیٹ پلیکشن کے تحت اداٸیگیاں یقینی بناٸی جائیں کیوں کہ گلگت بلتستان کے اندر تقریباً 70 فیصد ایسے منصوبے ہے جن کی لاگت ایک کروڑ پچاس لاکھ سے کم ہے حکومت خود اس بات سے اتفاق کرتی رہی ہے کہ جی میں ریٹ انتہائی کم ہے اور جو تجزیہ ہوا ہے وہ بھی متعلقہ محکمہ کی زیر نگرانی ہوا ہے اب یہ کہا جاتا ہے کہ ایک دم سے ریٹس میں اضافہ ہونے سے حکومت پر بوجھ بڑھ جاۓ گا حکومت کے لیے یہ رقم اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مترادف سے اور جب ایک سٹیٹ ہی رقم برداشت نہیں کر سکتی تو ایک بیچارہ ٹھیکیدار کیسےبرداشت کرنے کا متحمل ہو سکتا ہے ہم نے ہر اس دروازے پر دستک دی جہاں سے شنوائی ممکن تھی لیکن ہمارے حصے میں مایوسی ہی آئی ہے پورے پاکستان میں اس وقت دوہرا معیار ہے جب تک اس دوہرے معیار کا خاتمہ نہیں ہوگا انصاف کا بول بالا نہیں ہو سکتا ہے ٹھیکیداروں کے ساتھ ہر دور میں ظلم ہوتا رہا ہے کبھی ٹھیکے داروں کو ان کے قانونی حق اسکلیشن سے محروم رکھا جاتا ہے تو کبھی انتہائی کم ریٹس دےکر ٹھیکیداروں کا معاشی قتل کیا جاتا ہے اب ہمارا صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے کسی کا بھی کوئی حق نہیں بنتا ہے کہ ہمارے ساتھ ظلم و زیادتی کرے اگر حقوق احتجاج سے ہی ملتے ہیں تو جی بی کے ٹھیکیدار تاریخی احتجاج کرینگے نہ کوٸی ٹینڈر ہوگا اور نہ ہی کوٸی اینٹ لگے گی ہم اس علاقے کے خیر خواہ ہے ہم یہ جاننے کے باوجود کی علاقہ بیمار منصوبوںکا قبرستان بننے جارہا ہے ایسے میں خاموش نہیں رہ سکتے لہذا ہمارا مطالبہ ہے کہ2021 کے ریٹس لاگو کیا جائے جو اس وقت کے پی کے اور پنجاب میں لاگو ہے اسکلیشن فی الفوردیا جائے نہ ہونے کی صورت میں بات اور معاملات دھرنوں میں ہی طےہونگے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں