368

ہتھیلی کی رگوں کے ذریعے شناخت کرنے والی جدید ٹیکنالوجی

چین کی ایک کمپنی ’’میلکس‘‘ (MELUX) نے ’’ایئرویو‘‘ کے نام سے ایسا نظام پیش کیا ہے جو کسی بھی شخص کو اس کی ہتھیلی میں موجود لاکھوں چھوٹی بڑی رگوں کی مدد سے شناخت کرتا ہے۔

ایئرویو (AirWave) کی تیاری میں مصنوعی ذہانت سے بھرپور استفادہ کیا گیا ہے جبکہ اسے بنانے والی کمپنی کا کہنا ہے کہ چہرے کے خدوخال یا انگلیوں کے نشانات سے شناخت کرنے والے نظاموں کے مقابلے میں اس نظام کو دھوکا دینا تقریباً ناممکن ہے۔

خاص بات یہ ہے کہ اس نظام میں کسی اسکینر پر ہتھیلی رکھ کر انتظار کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ اسکینر کے سامنے سے اپنی ہتھیلی گزارنی ہوتی ہے۔ تیز رفتار اسکینر اسی دوران ہتھیلی میں چھوٹی بڑی رگوں کا تجزیہ کر لیتا ہے اور صرف 0.3 سیکنڈ (ایک سیکنڈ کے تیسرے حصے) میں شناخت کا عمل مکمل کرلیتا ہے۔

ایئرویو بنانے والی کمپنی ’’میلکس‘‘ کا کہنا ہے کہ مصنوعی ذہانت استعمال کرنے والے موجودہ شناختی نظام، چہرے پر 80 سے لے کر 280 تک مقامات کی مدد سے کسی فرد کو شناخت کرتے ہیں۔

ان کے مقابلے پر ایئرویو میں ہتھیلی پر دس لاکھ سے زیادہ چھوٹے چھوٹے مقامات استعمال کیے جاتے ہیں جو کھال کے اندر سے گزرنے والی چھوٹی بڑی رگوں کی وجہ سے جلد کے اوپر نمودار ہوجاتے ہیں۔

یہ شناختی نشانات ہر انسان میں اسی طرح منفرد ہوتے ہیں جیسے فنگر پرنٹس۔ اس لیے انہیں بھی فنگر پرنٹس کی طرح شناخت میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔

اس معاملے میں غلطی سے پاک، تیز رفتار شناخت بطورِ خاص قابلِ ذکر کامیابی ہے کیونکہ صرف 0.3 سیکنڈ میں دس لاکھ سے زیادہ نشانات کا تجزیہ کرنا اور پھر ایک ارب ہتھیلیوں کے نشانات پر مشتمل، لمبا چوڑا ڈیٹابیس کھنگال کر شناخت کا عمل مکمل کرنا بلاشبہ بہت مشکل ہے۔

ایئرویو سسٹم کا ایک اور اہم پہلو بھی ہے جس کا تعلق ’’ڈیپ فیک‘‘ سے ہے: حالیہ برسوں میں ’’ڈیپ فیک‘‘ کی بدولت لوگوں کے مصنوعی چہرے بڑی آسانی سے تیار کیے جارہے ہیں جنہیں استعمال کرتے ہوئے قیافہ شناس نظاموں کو بہ آسانی دھوکا دیا جاسکتا ہے۔ لیکن ایئرویو ایک بالکل مختلف بنیاد پر کام کرتا ہے جسے کم از کم ڈیپ فیک کی مدد سے دھوکا نہیں دیا جاسکتا۔

چینی اخبار ’’چائنا ڈیلی‘‘ کے مطابق، میلکس کمپنی سے جنوبی چین کے صوبے گوانگ ڈونگ کی حکومت نے مذاکرات شروع کردیئے ہیں تاکہ مختلف سرکاری خدمات میں شناخت کی غرض سے اس نظام کو استعمال کیا جاسکے۔

واضح رہے کہ چین میں پہلے ہی ادائیگیوں کے لیے کیو آر کوڈ اور پاس ورڈ وغیرہ کے بجائے چہرہ شناسی کے نظاموں کو مقبولیت حاصل ہورہی ہے جس میں رقم ادا کرنے والے شخص کو صرف چند سیکنڈ کے لیے ایک خاص مشین کے سامنے کھڑا ہونا پڑتا ہے جس دوران اس کی شناخت ہونے کے ساتھ ساتھ خرید کردہ چیزوں کی رقم اس کے اکاؤنٹ سے خود بخود ادا بھی کردی جاتی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں