142

دھاتی اشیا کو روبوٹ بنانے والا ’مقناطیسی اسپرے‘

ہانگ کانگ: اب ایک مقناطیسی پھوار سے عام اشیا کو بہت آسانی سے لڑھکنے، چلنے، پھرنے اور بھاگنے والے روبوٹ میں بدلا جاسکتا ہے۔

سٹی یونیورسٹی آف ہانگ کانگ کے سائنسدانوں نے ایک خاص اسپرے بنایا ہے جس کی تہہ دھاتی اشیا پر چڑھنے کے بعد وہ عجیب و غریب روبوٹ میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ ان کی مختلف حرکات کو دلچسپ انداز میں استعمال کرکے کئی کام لیے جاسکتےہیں۔ جن میں طبی استعمال اور انسانی جسم کے اندر دوا پہنچانے جیسے مشکل امور شامل ہیں۔

یہ تحقیق چند ملی میٹر کیڑے نما روبوٹ پر کی گئی ہے جو انسانی جسم میں رینگ سکتے ہیں۔ سٹی یونیورسٹٰی کی ٹیم سال 2018 سے ان پر کام کررہی ہے۔ اب ربڑنما سلیکون سے بنے روبوٹ پر خردبینی مقناطیسی ذرات کی بوچھاڑ انہیں اچھلنے، کودنے اور رینگنے والے روبوٹ میں تبدیل کرسکتی ہے۔ لیکن اس کے لیے بیرونی طور پر مقناطیسی میدان فراہم کرنا ہوگا۔
اس کے لیے نئے سرے سے مقناطیسی روبوٹ بنانے کی بجائے ماہرین نے چند ملی میٹر کے ’ملی روبوٹس‘ بنائے۔ مقناطیسی اسپرے کو ایم اسپرے کا نام دیا گیا ہے جسے پولی وینائل الکحل، گلوٹین اور لوہے کے باریک چورے سے تیار کیا گیا ہے۔ کسی بھی سطح پر اسپرے کیا جائے تو یہ ہموار انداز میں ایک باریک چادر سی چڑھا دیتا ہے اور اس شے کو مقناطیسی کردیتا ہے۔

تحقیقی ٹیم کے سربراہ ڈاکٹر شین یاژانگ کہتے ہیں کہ ایم اسپرے کسی بھی شے پر لگنے کے بعد اسے مقناطیسی میدان (میگنیٹک فیلڈ) میں حرکت کے قابل بنادیتا ہے۔ اس تہہ کی موٹائی ایک ملی میٹر کے ایک چوتھائی کے برابر ہے اس سے اصل شےیا روبوٹ کی جسامت برقرار رہتی ہے۔ سب سے پہلے دھاگوں، بارک پلاسٹک اور پلاسٹک کے تاروں پر اسپرے کیا گیا ۔ اس کے تحت سب چھوٹے چھوٹے روبوٹ بن گئے اور چلنے پھرنے لگے۔ لیکن پتھریلی چیزوں پر یہ تجربہ ناکام رہا۔

لیکن روبوٹ کو اپنی مرضی کے تحت چلانے کے لیے اسپرے میں کمی بیشی کی جاسکتی ہے اور دوسری جانب مقناطیسی میدان میں تبدیلی سے بھی حسبِ خواہش نتائج حاصل کئے جاسکتے ہیں۔ اسی طرح مقناطیسی ذرات کی ترتیب میں تبدیلی سے بھی روبوٹ پر اثر پڑسکتا ہے۔

اب جو روبوٹ بنے ان میں سے ایک سُنڈی (کیٹرپلر) کی طرح چلتا ہے ایک روبوٹ تیزی سے گھوم سکتا ہے اور مستقبل میں اسے انسانی جسم میں دوا پہنچانے پر معمور کیا جاسکتا ہے۔ یہ روبوٹ محض دیکھنے کی شے نہیں ہیں بلکہ ماہرین نے انہیں مختلف جانوروں پر بھی آزمایا ہے۔

ایک تجربے میں چوہوں کو بے ہوش کیا گیا اور ان کے اندر ایم اسپرے سے بنائے گئے چند ملی میٹر کے روبوٹ داخل کئے گئے۔ اس طرح کوٹنگ اترنے سے پہلے پہلے کیپسول خرگوش کے جسم میں اپنے مطلوبہ مقام تک پہنچ چکا تھا۔ اس لحاظ سے یہ ایک بہترین کاوش ہے۔

پروفیسر شین کے مطابق اگر اسپرے کے اجزا انسانی جسم میں چلے جائیں تو یا تو وہ بے ضرر انداز میں جسم میں جذب ہوجائیں گے یا پھر فضلے کے ذریعے خارج ہوجائیں گے۔ لیکن مقناطیسی مِلی روبوٹ کی کہانی یہاں پر ختم نہیں ہوتی اور انہیں حرکت کرنے والے سینسر، حادثاتی تحقیق اور دیگر شعبوں میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔

بشکریہ ایکسپریس نیوز

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں