121

کائنات کے ’سب سے نرم‘ سیارے نے سائنسدانوں کو پریشان کردیا

پیساڈینا، کیلیفورنیا: سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ تین سال قبل دریافت ہونے والا سیارہ ’’واسپ 107 بی‘‘ اس قدر نرم اور کم کثافت والا ہے کہ ہمارے موجودہ فلکیاتی نظریات کے مطابق، اس سیارے کو وجود میں آنا ہی نہیں چاہیے تھا۔

واضح رہے کہ دریافت کے وقت ہی ’واسپ 107 بی‘ کو سب سے کم کثافت والا سیارہ قرار دے دیا گیا تھا جہاں بڑی مقدار میں ہیلیم گیس کی موجودگی کا انکشاف بھی ہوا تھا۔ لیکن اب ماہرینِ فلکیات کی ایک عالمی ٹیم نے معلوم کیا ہے کہ اس کی کثافت ہمارے سابقہ اندازوں سے بھی بہت کم ہے۔

بتاتے چلیں کہ ’واسپ 107 بی‘ ایک ایسے سیاروی نظام (پلینٹری سسٹم) کا حصہ ہے جو ہم سے 211 نوری سال دور، برجِ سنبلہ کی سمت میں واقع ہے۔
اس سیارے کا شمار ’نارنجی دیووں‘ (orange giants) کہلانے والے ’سپر نیپچون‘ قسم کے سیاروں میں ہوتا ہے۔ یعنی اس کا بیشتر حصہ گیس پر مشتمل ہے۔

یہ اپنے مرکزی ستارے (WASP-107) سے لگ بھگ اتنا ہی قریب ہے جتنا ہماری زمین اور سورج کا درمیانی فاصلہ ہے۔

یہ اپنے ’سورج‘ کے گرد اتنی تیزی سے چکر لگا رہا ہے کہ صرف 138 گھنٹوں (5.72 زمینی دنوں) میں ایک چکر مکمل کر لیتا ہے۔ آسان الفاظ میں کہا جاسکتا ہے کہ ’واسپ 107 بی‘ کا ایک سال، زمین پر گزرنے والے صرف 5.72 دنوں میں مکمل ہوجاتا ہے۔

مرکزی ستارے سے بہت قریب ہونے کی وجہ سے یہ بہت گرم بھی ہے اور اس کا بیرونی درجہ حرارت 462 ڈگری سینٹی گریڈ کے لگ بھگ معلوم کیا گیا ہے۔

تاہم ان سب سے زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ اگرچہ اس سیارے کی جسامت ہمارے نظامِ شمسی کے سب سے بڑے سیارے مشتری (جیوپیٹر) جتنی ہے لیکن اس کی کمیت (مادّے کی مقدار) اس سے تقریباً دس گنا کم، یعنی ہمارے ’نیپچون‘ جیسی ہے۔

مطلب یہ کہ اگر ’واسپ 107 بی‘ سے ایک مکعب سینٹی میٹر مادّہ لیا جائے تو اس کی کمیت صرف 0.13 گرام ہوگی۔ اس کے مقابلے میں مشتری کی کثافت دس گنا زیادہ یعنی 1.33 گرام فی مکعب سینٹی میٹر، جبکہ زمین کی اوسط کثافت 5.51 گرام فی مکعب سینٹی میٹر ہے (جو ’واسپ 107 بی‘ سے 42.4 گنا زیادہ ہے)۔

کسی سیارے کی اتنی کم کثافت صرف تب ہی ممکن ہے جب اس کے مرکزی حصے یعنی قلب (core) کی کمیت بھی بہت کم ہو۔

تازہ تحقیق میں ماہرین نے محتاط اندازہ لگایا ہے کہ ’واسپ 107 بی‘ کے قلب کی کمیت ناقابلِ یقین حد تک کم، یعنی زمین کے مقابلے میں صرف 4.6 گنا زیادہ ہے۔ اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ ’واسپ 107 بی‘ کا 85 فیصد مادّہ گیس کی شکل میں ہے۔

بظاہر یہ بات بھی بہت زیادہ عجیب نہیں کیونکہ مشتری کے بارے میں یہی اندازہ لگایا گیا ہے کہ اس کی مجموعی کمیت کا صرف 5 سے 15 فیصد حصہ ’قلب‘ کی صورت میں ہے جبکہ مشتری کی 85 سے 95 فیصد تک کمیت دبیز گیس کی صورت میں قلب کے گرد مسلسل حرکت کررہی ہے۔

البتہ ماہرین کےلیے یہ بات سب سے زیادہ پریشان کن ہے کہ ’واسپ 107 بی‘ اپنے مرکزی ستارے سے اتنا قریب ہے کہ جہاں کسی بھاری بھرکم گیسی سیارے کے وجود میں آنے کا کوئی امکان نہیں۔ ہمارے مروجہ فلکیاتی نظریات ہمیں یہی بتاتے ہیں۔

اگر ہمارے یہ نظریات درست ہیں تو پھر ’واسپ 107 بی‘ اپنے ستارے سے بہت دور کسی مدار میں بنا ہوگا، جسے آس پاس موجود دوسرے اور اس سے بھی زیادہ بڑے سیاروں کی قوتِ ثقل (گریویٹی) نے دھکیل کر ستارے کے قریب کردیا ہوگا۔

لیکن اگر ایسا نہیں ہوا تو پھر ہمیں اپنے مروجہ فلکیاتی نظریات میں تبدیلی کرنا ہوگی۔ تاہم اس سے پہلے ہمیں ’واسپ 107 بی‘ جیسے اور سیارے دریافت کرنا ہوں گے جو اپنے ستارے سے قریب ہونے کے علاوہ ’گیسی دیو‘ بھی ہوں۔

سرِدست اس بارے میں بحث جاری ہے جس کا حتمی نتیجہ شاید کئی سال بعد ہی برآمد ہوسکے۔

نوٹ: اس تحقیق کی تفصیل ’’دی ایسٹرونومیکل جرنل‘‘ کے تازہ شمارے میں آن لائن شائع ہوئی ہے۔

بشکریہ ایکسپریس نیوز

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں