194

بحیرہ مردار کے قریب ’’خلائی مرکب‘‘ کی دریافت

سینٹ پیٹرزبرگ: روسی ماہرین نے اسرائیل میں دنیا کی نمکین ترین جھیل ’’بحیرہ مردار‘‘ کے قریب سے ایک ایسا معدنی مرکب دریافت کیا ہے جو آج تک صرف آسمان سے زمین پر گرنے والے شہابیوں میں ہی پایا گیا ہے۔

’’ایلابوگڈینائٹ‘‘ (Allabogdanite) نامی یہ مرکب فاسفورس پر مشتمل ہوتا ہے جو پہلی بار آج سے تقریباً بیس سال قبل، روس سے ملنے والے ایک چھوٹے شہابِ ثاقب میں دریافت ہوا تھا۔ اس شہابِ ثاقب میں لوہے کی وافر مقدار موجود تھی۔

اس مرکب کو اپنی دریافت کنندہ سائنسدان، ایلا بوگدانووا کے نام پر ’’ایلابوگڈینائٹ‘‘ کا نام دے دیا گیا۔
برسوں بعد یہی ’’خلائی مرکب‘‘ ایک بار پھر زمین پر دریافت ہوا ہے، لیکن اب کی بار یہ اسرائیل میں بحیرہ مردار کے قریب واقع، اُس علاقے سے ملا ہے جسے آثارِ قدیمہ کے ماہرین قومِ لوط کا علاقہ قرار دیتے ہیں۔

واضح رہے کہ 2015 میں ایک اور تحقیقی ٹیم نے دریافت کیا تھا کہ بحیرہ مردار کے ارد گرد والے علاقے میں آج سے 3700 سال پہلے کوئی بڑا شہابِ ثاقب ہوا میں پھٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا تھا؛ جس کے نتیجے میں یہاں شدید گرم اور دہکتے ہوئے پتھروں کی بارش ہوئی تھی۔

اس دریافت کی تصدیق کرنے کےلیے روسی ماہرین کی ٹیم نے بحیرہ مردار سے متصل اسرائیلی علاقے میں مختلف رسوبی چٹانوں کے نمونے جمع کیے اور ان کا محتاط تجزیہ شروع کیا۔

طویل تجزیئے کے بعد ان نمونوں میں کئی جگہوں پر انہیں ایلابوگڈینائٹ مرکب کا علم ہوا۔ اگرچہ اس کی مقدار بہت زیادہ نہیں تھی لیکن اتنی ضرور تھی کہ اسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔

اس دریافت کی روشنی میں مختلف مفروضے جنم لے رہے ہیں لیکن سائنسدانوں نے خبردار کیا ہے کہ یہ ایک سائنسی تحقیق ہے جس سے مذہبی نتائج اخذ نہ کیے جائیں۔

نوٹ: یہ دریافت اور متعلقہ تحقیق کی تفصیلات ریسرچ جرنل ’’امریکن منرولوجسٹ‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہوئی ہے۔
بشکریہ ایکسپریس نیوز

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں