144

دونوں بازوؤں کی بلڈ پریشر پیمائش کا فرق مضرِ صحت ہوسکتا ہے

ایکسیٹر: دنیا کے کئی ممالک میں کئے گئے ہزاروں افراد پر تحقیق سے انکشاف ہوا ہے کہ اگر دونوں بازوؤں سے لیے گئے بلڈ پریشر میں واضح اور مستقل فرق ہو تو اس مردوخاتون میں دل کے دورے اور فالج کا خطرہ زیادہ بڑھ سکتا ہے۔

اس ضمن میں یونیورسٹی آف ایکسیٹر نے عالمی INTERPRESS-IPD تعاون کے تحت ایشیا، یورپ، افریقہ اور امریکہ کے 24 ممالک میں کئے گئے 54 ہزار مریضوں کے سروے کا دوبارہ جائزہ لیا ہے جسے میٹا مطالعہ کہا جاتا ہے۔ اس تحقیق کو نیشنل انسٹی ٹیوٹ فار ہیلتھ ریسرچ کے تعاون سے مکمل کیا گیا اور اس کی تحقیقات ہائپرٹینشن نامی جرنل میں شائع کی گئی ہے۔

تحقیق کا خلاصہ یہ ہے کہ دونوں بازوؤں سے لیے گئے بلڈ پریشر کا فرق جتنا زیادہ ہوگا اور مستقل ہوگا اس مریض کے لیے خطرہ اتنا ہی بڑا ہوگا۔ اسی بنا پر دونوں بازوؤں سے بلڈ پریشر لینے کے رحجان پر زور دیا جارہا ہے۔ اگرچہ بعض ماہرین اس پر پہلے بھی زور دیتے آئے ہیں لیکن اب اس پر خصوصی توجہ دینے کی درخواست دی بی کی گئی ہے۔
یہ مطالعہ دس برس تک کیا گیا ہے اور اس میں دونوں بازوؤں میں زائد فرق والے مریضوں میں بطورِ خاص دل کے دورے، امراضِ قلب اور فالج کو دیکھا گیا ہے۔ ایکسیٹر میڈیکل اسکول کے ڈاکٹر کرس کلارک اس تحقیق کے سربراہ ہیں اور وہ اب دونوں بازوؤں سے بلڈ پریشر لینے کو معمول بنانا چاہتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ تحقیق پہلے ہی بتاتی ہے کہ دونوں بازوؤں میں بلڈ پریشر کا فرق صحت کی خرابی کو ظاہر کرتا ہے اور ہم نے اس کا مزید گہرا مطالعہ کرکے اسے تفصیل سے دیکھا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر دونوں بازوؤں کی ریڈنگ میں 15 ایم یم ایچ جی کا فرق مستقل ہوجائے تواس سے دل کے متاثر ہونے کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔ اس طرح مستقبل کے کسی بھی مریض کو پہلے ہی خبردار کیا جاسکتا ہے۔

ماہرین نے یہ بھی کہا ہے کہ جن افراد کے دونوں بازوؤں کے بلڈ پریشر میں 10 ایم ایم ایچ جی کا فرق ہو تو ان کی 11 فیصد تعداد کو پہلے ہی بلڈ پریشر کا مریض پایا گیا ہے۔

بشکریہ ایکسپریس نیوز

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں