160

ماں کے خون سے بچے میں آٹزم کی 100 فیصد نشاندہی کرنے والا ٹیسٹ

ڈیوس: ترقی پذیر ممالک میں ہر پانچ میں سے ایک بچہ آٹزم کا شکار ہے اور اسی طرح پاکستان میں ایسے بچوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ اس مرض کا پورا نام آٹزم اسپیکٹرم ڈس آرڈر(اے ایس ڈی) ہے جسے شناخت کرنے کا ایک نہایت قابلِ اعتبار ٹیسٹ وضع کیا گیا ہے۔

جامعہ کیلیفورنیا، ڈیویس اور اسٹینفرڈ یونیورسٹی کے ماہرین نے 450 ایسی ماؤں کے خون میں پلازما کا جائزہ لیا جن کے بچے آٹزم کے شکار ہوئے تھے۔ ساتھ ہی 342 مائیں ایسی تھیں جن کے بچے اس تکلیف دہ کیفیت سے آزاد تھے۔

ماہرین نے ELISA نامی ایک ٹیکنیک سے خاص اینٹی باڈیز اور پروٹین کا جائزہ لیا۔ معلوم ہوا ہے کہ بعض حاملہ خواتین میں 8 کے قریب ایسے پروٹین پائے جاتےہیں جو دورانِ حمل ان میں غیرضروری امنیاتی ردِ عمل جگاتے ہیں۔ اس کی وجہ سے پیٹ میں موجود بچے کا دماغ شدید متاثر ہوتا ہے اور وہ آٹزم جیسے عمر بھر کے روگ کا شکار ہوجاتا ہے۔ اس طرح معلوم ہوا کے حمل کےدوران پل پل بڑھتا ہوا بچے کا دماغ پروٹین اور اینٹی باڈیز سے یہاں تک متاثر ہوسکتا ہے کہ وہ آٹزم کا شکار ہوجاتا ہے۔
اسی طرح کی ایک تحقیق 2019 میں کی گئی جس میں کہا گیا تھا کہ پرامید ماؤں کے جسم سے ازخود آٹواینٹٰی باڈیز خارج ہوتی ہیں۔ اس کا اثر بچے کے اعصابی خلیات پر ہوتا ہے۔ اس طرح پیدا ہونے والے بچے آٹزم کے شکار ہوسکتےہیں۔ لیکن حالیہ تحقیق میں ماہرین نے ڈیٹا، مشین لرننگ کو استعمال کرتے ہوئے آٹھ پروٹین کےممکنہ اثرات کو نوٹ کیا ہے۔ اس کےعلاوہ خون میں ’کولاپسن ریسپانس میڈی ایٹر پروٹین (سی آر ایم پی) اور گوانائن ڈیمائنیز (جی ڈی اے) جیسے بایومارکر کو بھی نوٹ کیا گیا۔

اس کے بعد ماہرین نے نتیجہ نکالا کہ ماں کے خون میں پائے جانے والے آٹھ پروٹین ایسے ہیں جو بچے میں آٹزم پیدا کرتےہیں۔ ان میں سی آر ایم پی ون اور جی ڈی اے جس ماں میں پائے جائیں ان میں دیگر کے مقابلے میں آٹزم میں مبتلا بچوں کی پیدائش کا خدشہ 31 گنا زیادہ ہوسکتا ہے۔

اس مطالعے کی بنا پر کہا جاسکتا ہے کہ ماہرین دورانِ حمل یہ بتاسکتے ہیں کونسا بچہ اپنی عملی زندگی میں آٹزم کا شکار ہوسکتا ہے۔

بشکریہ ایکسپریس نیوز

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں